عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے کلبھوشن یادو کیس سے متعلق اپنا فیصلہ سنا دیا، جس کے تحت بھارت کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی جبکہ پاکستان کو مقدمے اور سزا پر نظرثانی اور موثر جائزہ لینے کا کہا گیا ہے۔
آئی سی جے کے صدر عبدالقوی احمد یوسف نے 42 صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ 15 رکنی فل بینچ میں ایک ایڈہاک پاکستانی اور ایک مستقل بھارتی جج بھی شامل تھے۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان کی سربراہی میں پاکستان کی قانونی ٹیم عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ سننے کے لیے نیدر لینڈ کے شہر دی ہیگ میں موجود تھی۔ ٹیم میں وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل بھی شامل تھے۔
عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں کہا کہ ’پاکستان نے سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے، جو ملکوں کو ان کے شہریوں کی بیرون ملک گرفتاری کی صورت میں شہریوں تک قونصلر رسائی کا حق دیتا ہے۔‘
مزید کہا گیا: ’پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن یادو کی تحویل کے دوران ان سے رابطے، رسائی اور ملاقات کے حق سے محروم رکھا جو ان کی قانونی نمائندگی کے انتظام کے لیے ضروری تھا۔‘
فیصلے کے مطابق: ’سزا کے خلاف حکم امتناعی کے دوران لازمی طور پر کلبھوشن یادو کے مقدمے اور سزا کا مؤثر جائزہ لیا جائے اور اس پر از سرنو غور کیا جائے۔‘
عالمی عدالت نے بھارت کی جانب سے فوجی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرنے، کلبھوشن کی رہائی اور محفوظ منتقلی کے مطالبات کو مسترد کردیا، تاہم حسین مبارک پٹیل کے نام سے کلبھوشن کے دوسرے پاسپورٹ کو اصلی قرار دیا۔
فیصلے میں پاکستان کی جانب سے آئی سی جے کے دائرہ اختیار پر اٹھائے گئے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی عدالت انصاف کو اپنے فیصلے نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کلبھوشن یادو کے کیس کے موثر جائزے کا کیا مطلب ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا: ’پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی طرح اپنی عالمی یقین دہانیوں سے شروع سے پیچھے نہیں ہٹا اور اس کیس پر قانون کے مطابق آگے بڑھے گا۔‘
دوسری جانب بھارت نے عالمی عدالت کے فیصلے کو ’مکمل فتح‘ قرار دے کر اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے پیغامات جاری کیے۔
I wholeheartedly welcome the verdict of International Court of Justice in the case of Kulbhushan Jadhav. It is a great victory for India. /1
— Sushma Swaraj (@SushmaSwaraj) July 17, 2019
کلبھوشن یادو کون ہے؟
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور انہیں مارچ 2016 کو بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج کی جانب سے کلبھوشن یادو کو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر اور بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنٹ بتایا گیا تھا۔
پاکستان حکام کے مطابق کلبھوشن کے پاس حسین مبارک کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام کے پاسپورٹ پر 17 بار دلی سے بیرون ملک فضائی سفر کیے۔
پاکستانی فوج کے اس دعویٰ کے ٹھیک دو روز بعد حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کیا اور کلبھوشن یادو کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔
اس کے چند ہی روز بعد پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادو کا زیر حراست اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں جاری کیا گیا اور بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔
اپریل 2017 میں کلبھوشن یادو کو فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا اور 10 اپریل کو انہیں سزائے موت سنا دی۔
عالمی عدالت میں کیس — کب کیا ہوا؟
کلبھوشن یادو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر 10 مئی کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے اس سـزائے موت کو رکوانے کی اپیل کی۔
15 مئی کو عالمی عدالت میں بھارتی درخواست کی سماعت ہوئی اور دونوں جانب کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تین روز بعد عالمی عدالت انصاف نے نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن یادو کو پھانسی نہ دینے کی ہدایت کی۔
آئی سی جے نے رواں سال 18 سے 21 فروری تک مقدمے کی سماعت کی۔
رواں سال فروری میں ہونے والی سماعت کے دوران بھارت نے موقف اختیار کیا تھا کہ اسے کلبھوشن یادو تک سفارتی رسائی دی جائے۔
بھارت کا موقف تھا کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔
بھارت نے پاکستان میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے تھے۔
دوسری جانب اسی سماعت کے دوران پاکستان نے جوابی دلائل میں موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت ویانا کنونشن کے معاہدوں کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی اس کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستانی وکیل خاور قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت تو کلبھوشن یادو کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ ان کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کا ہے۔