’رشتے والے یہ سن کر فون بند کر دیتے کہ والد حیات نہیں‘

فیس بک پر ’ڈراؤنی رشتہ کہانیاں‘ کے نام سے ٹرینڈ میں لڑکیاں بتا رہیں ہیں کہ انہیں رشتہ طے ہونے کے معاملات میں کتنی تکالیف سے گزرنا پڑا۔

2016 میں نشر ہونے والا پاکستانی ڈراما ’من مائل‘ (ہم ٹی وی) 

’شادی کے لیے رشتے ہم دونوں بہنوں کے لیے ناقابل فراموش اور کسی ٹراما سے کم تجربہ نہ تھا۔۔۔ لوگ والد کے حیات نہ ہونےکا سن کر فون ہی بند کر دیتے تھے۔‘

یہ کہنا تھا ثمینہ کا جو کئی سال پاکستان میں رشتہ پریڈ کلچر کے منفی اثرات سے گزرنے کے بعد اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوئیں اور اپنے کیریئر پر توجہ مرکوز کرنے کے بعد اپنی پسند سے شادی کی اور خوشحال زندگی بسر کر رہی ہیں۔

چند روز قبل فیس بک پر خواتین کے کچھ گروپس میں ڈراونی رشتہ کہانیاں (horror rishta stories) کے نام سے ٹرینڈ چلا جس میں خواتین نے اپنے تجربات شیئر کیے کہ انہیں کس طرح اس سماجی روایت میں تکلیف دہ مرحلوں سے گزرنا پڑا۔

آن لائن فورمز میں کچھ صارفین نے لکھا کہ کیسے ان کا پالا جہیز کے لالچی لوگوں سے پڑا، تو کچھ نے بتایا کہ کیسے ان کے گھروں میں لوگوں نے آ کر انہیں کمتر محسوس کروایا۔ ایک صارف نے لکھا کہ وہ نو سالوں میں 30 خاندانوں کے سامنے یہ پریڈ کر چکی ہیں لیکن ان کا امتحان ابھی تک ختم نہیں ہوا۔

ثمینہ کا تجربہ بھی ایسا ہی رہا۔ وہ کچھ شرائط پر انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی کہانی سنانے کو تیار تھیں۔ وہ شرائط تھیں کہ ہم ان کا پورا نام نہ لکھیں، ان کے شوہر کے بارے میں نہ لکھیں اور نہ یہ بیان کریں کہ وہ کہاں کام کرتی ہیں اور کہاں رہتی ہیں۔

ثمینہ کی شادی کو 10 سال سے کم کا عرصہ ہوا ہے اور ان کے دو بچے ہیں۔ ان کی شادی ان کے ہی ایک کولیگ کے ساتھ ان دونوں کی مرضی سے ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ رشتہ پریڈ سے ان کا تعارف  20 یا 22 سال پہلے ہوا جب وہ ان کی بڑی بہن اس عمر میں پہنچی جس میں لڑکیوں کے رشتے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی والدہ رسم دنیا کو نبھانے کے لیے تیار ہوگئیں۔

ثمینہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں تھیں۔ انہوں نے والد کی تنخواہ اور گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر جمع کیے ہوئے پیسوں سے اپنے تین بچوں کو پڑھایا اور گھر چلایا۔

ثمینہ اور ان کی بہن نے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ ان کا چھوٹا بھائی کاروبار کرتا ہے۔ شادی کے رشتوں کا عمل دنوں بہنوں کے لیے دباؤ کا باعث رہا۔

ثمینہ کے بقول: ’ہمارے گھر ایک باجی نسرین آیا کرتی تھیں۔ رکشے سے اتر کر وہ ہانپتی کانپتی اندر آتیں اور امی سے کہتی ’باجی رکشے دا کرایہ تے دینا‘ (باجی رکشے کا کرایہ دیں)۔

اندر آتے باجی نسرین کا دوسرا مطالبہ ہوتا کھانا اور پانی، وہ بھی کسی کولڈ ڈرنک سے کم نہیں۔ مطالبے پورے ہونے پر وہ اپنے کالے رنگ کے پھٹے پرانے بیگ میں سے ایک پوٹلی نکالتی جس میں بوسیدہ طے کی ہوئی مختلف پرچیاں، البمز، ایک دو ڈائریاں وغیرہ ہوتی تھیں۔

’بس اس کے بعد امی بھی ایک ڈائری لے کر ان کے پاس بیٹھ جاتیں اور بات چیت شروع ہو جاتی۔ ہماری امی کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ رشتہ لانے والی فیملی شریف خاندان ہو، لڑکا پڑھا لکھا اور صاحب روزگار ہو۔

’ملک سے باہر کے رشتوں میں میری والدہ کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ خیر باجی نسرین نے رکشوں کے کرائے لے لے کر حد کر دی مگر رشتے کوئی ایک دو ہی دکھائے جو ہماری والدہ کو پسند نہیں آئے تھے۔‘ 

وہ بتاتی ہیں کی باجی نسرین کو ان کے بھائی کے رشتے میں بہت دلچسپی تھی جو ابھی کالج کے دوسرے سال میں پڑھ رہا تھا۔ وہ کہتی تھیں: ’کڑیاں بتھیریاں لیکن منڈے تے لبدے ہی نہیں، تسی منڈے بارے کی سوچیا؟‘ (لڑکیاں تو بہت ہیں مگر رشتے کے لیے لڑکے نہیں ملتے آپ نے بیٹے کے بارے میں کیا سوچا ہے؟

آخر کار ثمینہ کی امی نے باجی نسرین پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا اور یوں جا کر ان کے رکشہ ٹیکسی سے نجات ملی۔ مگر یہ کہانی کا اختتام نہیں تھا۔ ثمینہ کی والدہ نے ایک معروف میرج بیورو سے رابطہ کیا۔

بیورو نے ایڈوانس میں کچھ پیسے لیے اور والدہ کو دھڑا دھڑ کچھ رشتے بتائے جو انہیں سننے میں اچھے لگے اور امی ان سے فون پر بات کرنے کے لیے راضی ہوگئیں۔ یوں ثمینہ اور ان کی بہن کے لیے وہ جذباتی تکلیف شروع ہوئی جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

ثمینہ بتاتی ہیں: ’فون آتا تھا، سب سے پہلے پوچھا جاتا تھا کہ لڑکی کہاں سے پڑھی ہے؟ سکول کون سا ہے؟ کالج کون سا ہے؟ ہم چونکہ سرکاری سکول اور کالج سے پڑھے تھے تو اس بات پر فون کی دوسری جانب سے آنے والی آواز کی کھنک میں کمی آنا شروع ہو جاتی تھی۔

’اس کے بعد لڑکی کی عمر کیا ہے؟ ہائٹ کتنی ہے؟ موٹی تو نہیں ہے؟ رنگ کیسا ہے جیسے ایم سی کیوز کے جواب امی دیتی تھیں۔

’اور اس سے پہلے کہ ہم ان سے ان کے ’شہزادہ گلفام‘ کے حوالے سے کچھ پوچھیں ان کا سوال ہوتا تھا کہ لڑکی کے والد کیا کرتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں یقین کیجیے میری والدہ کا کہنا ہے کہ فون کے دوسری طرف مردگنی چھا جاتی تھی جب وہ انہیں بتاتی تھیں کہ والد تو تب ہی انتقال کر گئے تھے جب بچے سکول میں تھے۔ فون بند ہونے سے پہلے آخری سوال ہوتا تھا بھائی کتنے ہیں؟

’ایک چھوٹا بھائی سن کر اکثر تو فون کی دوسری طرف سے ٹوں ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگتی تھی اور امی فون رکھتے ہوئے افسردہ چہرے اور رندھی آواز میں کہتی تھیں، انہوں نے تو فون ہی بند کر دیا۔‘

ثمینہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ فون اس بات پر بند کرتے تھے: ’دیکھیں نہ یہ میرج بیورو والے پوری بات نہیں بتاتے۔‘

والدہ جب میرج بیورو والوں سے پوچھتیں تو معلوم ہوتا کہ فون کرنے والے یہ سوچ کر فون بند کر گئے کہ یہاں سے تو کچھ نہیں ملے گا۔

وہ تو یہ بھی بتاتے تھے کہ لڑکے والے دراصل ایسا رشتہ دھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ جہاں لڑکی کھاتے پیتے گھرانے کی ہو اور اس کے دو چار بھائی ہوں جو لڑکے کو بھی سپورٹ کر سکیں۔

ثمینہ کے مطابق جو رشتے گھر تک پہنچے ان کے بھی الگ ہی مطالبے تھے۔ ’وہ تجربہ بھی انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے ہم کسی بازار میں بیٹھے ہیں، جیسے دکانوں پر سوٹ نہیں لٹکے ہوتے کہ یہ اچھا ہے اس کا میٹیریل صحیح نہیں یا اس کی فٹنگ خراب لگ رہی ہے۔ یقین کریں ویسا ہی محسوس ہوتا تھا۔

’ایک مرتبہ تو ایک خاتون نے میرے بال کھینچ کر دیکھا کہ وہ اصلی ہیں کہ نہیں۔ ایک مرتبہ ایک فیملی آئی جو میری عمر کا تعین کرنا چاہتی تھی کہ جو بتائی گئی ہے میں اسی عمر کی ہوں یا امی نے جھوٹ بولا ہے۔

’یہاں تو میرے چھوٹے بھائی کو بھی غصہ آگیا اور بولا آپی آپ انہیں اپنا شناختی کارڈ اور رزلٹ کارڈز لا کر دکھائیں تاکہ انہیں آپ کی عمر کا یقین ہو جائے۔ بس پھر ہم پر بد تمیز ہونے کا لیبل بھی لگ گیا۔‘

رشتہ دیکھتے کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنہوں نے پورے گھر کا دورہ کیا، یہاں تک واش روم بھی دیکھے۔

’ہمارا گھر چھوٹا تھا مگر اپنا تھا۔ لیکن رشتہ گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے بھی نہیں ہوتا تھا اور آنے والے میرج بیورو کو کہتے تھے کہ ان کا گھر چھوٹا ہے اور واش روم تو بہت ہی چھوٹے، یعنی انہیں یہ فکر لگ جاتی تھی کہ ان کا شہزادہ یہاں چھوٹے واش روم استعمال کرے گا یا اس کے سونے کے لیے بڑا سا کمرا نہیں ہے۔‘

ثمینہ نے بتایا کہ یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلا، لیکن پھر ایک خاندان ایسا آیا جسے صرف لڑکی سے سروکار تھا اور اس طرح ان کی بہن کی شادی ایک اچھے خاندان میں ہو گئی۔

اس کے بعد ثمینہ نے مزید رشتے والوں کے سامنے بیٹھ کر مزید تزلیل برداشت کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے بھائی نے بھی اس فیصلے میں ان کا ساتھ دیا اور والدہ کو سمجھایا۔

ثمینہ نے بتایا کہ ان کی شادی کافی دیر سے ہوئی لیکن اس وقت وہ ایک اچھے ادارے میں ایک بڑی پوسٹ پر ہیں، اپنا گھر اور گاڑی ہے جبکہ شادی انہوں نے چند برس پہلے اپنے ہی ایک کولیگ سے کی، جن کے ساتھ ان کے دو بچے ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’میں اس سارے مرحلے میں خود کو کم تر اور حقیر محسوس کیا کرتی تھی جبکہ میں دراصل اس کے برعکس تھی۔‘

رشتہ کروانے والوں کے تجربات

ہم نے لاہور میں ایک میچ میکر عالیہ ساجد سے رابطہ کیا جنہوں نے اس عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لڑکا لڑکی کے پروفائل فارمز بنائے ہوئے ہیں جنہیں دونوں پارٹیوں کو پر کر کے انہیں دینا ہوتا ہے تاکہ ان کی ضرورت کے مطابق فروفائلز میچ کر کے انہیں ملوایا جائے۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا سے رشتے دیھکنے کے طریقے میں فرق آیا ہے۔ ’رشتہ پریڈ تو تب شروع ہو نہ جب لوگ ایک دوسرے کے گھر جائیں اور ملیں۔ یہاں تو آج کل کام واٹس ایپ پر زیادہ چل رہا ہوتا ہے۔

’زیادہ تر لوگ واٹس ایپ پر بھیجی جانے والی لڑکی یا لڑکے کی تصاویر کو دیکھ کر ہی ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ہاں یا نہ کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے ان کی پروفائل کی بیشتر چیزیں آپس میں میل ہی کیوں نہ کھا رہی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں: ’ہم انہیں گھروں سے نکالتے ہیں اور زور لگاتے ہیں کہ برائے مہربانی آپ کم از کم ایک دوسرے سے ملیں لیکن ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ جی اور تصویریں بھیجیں کیونکہ ایک سے ان کی تسلی نہیں ہو رہی ہوتی۔

’اور افسوس کہ ہمیں بعض اوقات کلائنٹ کو یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ سیلفیاں نہ بھیجیں بلکہ کوئی اچھی تصاویر بنا کر بھیجیں کیونکہ اگر تصویر اچھی نہ ہوئی تو آپ کا اچھا خاصہ پروفائل مسترد ہو جائے گا۔‘

مطالبات کیا ہوتے ہیں؟

عالیہ ساجد کہتی ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں کے خاندانوں کے مطالبات بہت ہوگئے ہیں۔ ’یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ رشتہ کم اور کاروبارکے مواقع زیادہ تلاش کر رہے ہیں۔

’اگر ایک کنال کا گھر ہے تو انہوں نے ایک کنال یا اس سے بڑے گھر میں ہی جانا ہے خاص طور پر لڑکی والے۔ چاہے لڑکے کا پروفائل بہت زبردست ہو لیکن صرف ایک اس پوائنٹ پر آ کر بات آگے نہیں جاتی کہ لڑکا 10 مرلے کے گھر میں رہتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسی طرح لڑکے والوں کا بھی یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ لڑکی پوش ایریا میں رہتی ہو اور اس کا خاندان پیسے والا ہو۔

’جیسے ہی پروفائل پر مغل پورہ، شاد باغ، سبزہ زار وغیرہ لکھا آجائے تو فوراً ہی دوسری جانب سے انکار ہو جاتا ہے۔ یہاں دونوں پارٹیاں لڑکے یا لڑکی کی باقی خصوصیات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔

’لڑکی والوں کی فرمائش ہوتی ہے کہ لڑکے کا قد لمبا ہو۔ کم سے کم بھی پانچ فٹ سات انچ۔ اس سے ایک انچ بھی کم ہو تو وہ باقی خصوصیات کو نظر اندز کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مڈل کلاس یا اس سے نیچے کی فیملیز، جنہوں نے محنت کر کے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی ہوگی، ان کی پروفائل پر بھی جب گھر کا رقبہ تین یا پانچ مرلہ لکھا ہوتا ہے یہ لکھا ہوتا ہے کہ والد کی کوئی دکان ہے یا وہ کوئی اور چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں تو یہ ان کے حق میں نہیں جاتا۔

انہوں نے کہا: ’کئی ایسی فیملیز ہیں میرے پاس جن کے بچوں کی عمریں بڑھتی جا رہی ہیں لیکن ان کی رٹ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر سے ہی کرنا ہے اور اگر ڈاکٹر لڑکی نہیں مل رہی تو وہ وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔

’اسی طرح لڑکی والے بھی دائیں بائیں ہونے کو تیار نہیں۔ انجینیئر ہے تو انجینیئر سے ہی رشتہ کرنا ہے یا سی اے والے سے کرنا ہے۔

’روز بروز لوگوں کے مطالبات بڑھتے ہی جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں بھی بہت سے مسائل کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 22 سے 23 سال کی عمر کی لڑکیاں اور 26 سے 27 سال کے لڑکے بھی ان کے پاس آتے ہیں۔

’شروع میں تو والدین گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے بچوں کی عمر بڑھتی جاتی ہیں تو ان کے گھوڑے کی رفتار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

’جیسے ہی عمر خاص طور پر لڑکیوں کی 30 ہوجاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جیسا بھی رشتہ ہے وہ بتائیں، اور یہی عمر 35 سے آگے جاتی ہے تو وہ دوسری شادی والے رشتے قبول کرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔

’میرے خیال میں یہ ہمارے معاشرے کا ایک خوفناک المیہ بن چکا ہے۔‘

عالیہ ساجد کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں انہوں نے ایک مثبت بات یہ دیکھی ہے کہ لوگ ذات اور برادری والے سسٹم سے مکمل تو نہیں لیکن کافی حد تک باہر آچکے ہیں۔

’البتہ ایک چیز ہے جس سے مجھے ذاتی طور پر بہت غصہ بھی آتا ہے کہ لڑکے کے پروفائل پر لڑکی کیسی ہو کے خانے میں لکھا ہوتا ہے لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت، سلم اور سمارٹ ہو اور رنگ گورا ہو۔

’ہمیں تو سبھی بچیاں پیاری لگتی ہیں لیکن جب انہیں ایک خاص زاویے سے اپنے بیٹے یا بھائی کے لیے دیکھا جاتا ہے تو اس اچھی بھلی بچی میں ہمیں کیڑے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ خاندانوں کا ایک اور مطالبہ چھوٹے خاندان بھی ہوگیا ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ مثال دی جب ایک لڑکے کے خاندان نے ایک رشتے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ لڑکی کے پانچ بہن بھائی تھے حالانکہ ملاقات میں دونوں خاندان ایک دوسرے کو پسند بھی آئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ایک یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سادہ سا پروفائیل ہو جس پر کوئی زمین، گھر یا کسی اضافی جائیداد کا ذکر نہ ہو تو وہ ہم سے کہتے ہیں کہ فیملی سے پوچھ کر بتائیں کہ ان کی کوئی جائیداد ہے؟ اس پر تو ہمیں بھی غصہ آجاتا ہے کہ بھئی آپ پہلے ملیں۔

’آپس میں بات چیت ہوگی تو اس وقت آپ فیملی سے پوچھ لیں کہ آپ کی کتنی زمین اور کتنی جائیدادیں ہیں۔ کچھ تو فارمز اس طرح سے بھی تیار ہوتے ہیں جس میں لکھا ہوتا ہے کہ گھر میں کتنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہیں۔ ‘

آن لائن میچ میکرز

سماجی رابطوں کی سائٹس پر ہمیں بہت سے ایسے گروپس اور پیجز ملے جو مختلف ناموں سے آن لائن رشتے کرواتے ہیں۔

یہاں آپ خود یا آپ کے گھر کا کوئی فرد آپ کا پروفائل پوسٹ کرتا ہے اور پھر وہاں سے کہانی آگے چلتی ہے۔

ان میں بھی جب ہم نے چیک کیا تو عالیہ ساجد کی یہ بات ٹھیک لگی کہ لوگ اب ذات برادری سے باہر آ رہے ہیں۔

بیشتر پروفائلز میں لکھا تھا کہ ذات کی کوئی بندش نہیں لیکن ساتھ ہی لڑکوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں لڑکی کوئی پروفیشنل ڈگری ہولڈر ہی چاہیے۔

ہم نے کچھ سوشل میڈیا سائٹس پر سوال پوچھا کہ لوگوں کا آن لائن میچ میکنگ کا تجربہ کیسا ہے تو ایک فیس بک صارف نے لکھا کہ وہ کینیڈا میں رہتی ہیں اور وہ بہت سے ایسے جوڑوں سے مل چکی ہیں جو آن لائن ملے اور شادی کی اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ کینیڈا میں یہ اب ایک معمول کی بات ہے کہ لوگ آن لائن میچ میکنگ کی سہولت کو استعمال کرکے شادیاں کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ تو ایک ایسے جوڑے کو بھی جانتی ہیں جن کی شادی ٹنڈر پر ملنے کے بعد ہوئی۔

ایک اور صارف ماہین نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ آج کل کوئی بھی اعتماد کے قابل نہیں ہے، جبکہ رابعہ نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’میرا مشورہ یہی ہے کہ آن لائن رشتہ سائٹس پر نہ جائیں کیونکہ ان میں سے بیشتر صرف ٹائم پاس کر رہے ہیں اور اگر کوئی سنجیدہ ہوتا بھی ہے تو فیملیز کے سٹینڈرڈ نہیں ملتے اس لیے یہ سر درد کے سوا کچھ نہیں۔‘

معاشرتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

راولہ کوٹ میں پونچھ یونیورسٹی کے وائس جانسلر اور سوشیالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر ذکریہ ذاکر کہتے ہیں ہمارا معاشرہ دیگر ممالک کی طرح انفرادیت پر مبنی معاشرے کی جانب جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انفرادیت پر مبنی معاشروں میں بھی یہی طریقہ عمل ہے، لڑکی ہو یا لڑکا ان کے اپنے کیرئیر کے حوالے سے کچھ خاص مقاصد ہیں، ان کی زندگی کا ایک منصوبہ ہے اس لیے وہ اپنا جیون ساتھی بھی ویسا ہی چنتے ہیں جو ان کے اس منصوبے میں فٹ ہوتا ہو اور اسے مزید طاقتور کرے اور اس میں کچھ غلط یا صحیح نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے شادیاں طے کرنے میں خاندان شامل ہوتے تھے۔ رشتہ طے کرنے کے پیچھے یہ سوچ ہوتی تھی کہ بچی کی فلاں برادری یا خاندان میں شادی کریں گے تو خاندان مضبوط ہوگا، بچوں کے لیے اچھے رشتے آئیں گے یا بیرون ملک جانے کا موقع ملے گا، تو یوں گھر کے بڑوں کی رضامندی بھی لی جاتی تھی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن اب یہ فیملی سے فرد کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ جیسے ایک لڑکی کہتی ہے کہ میں نے ڈاکٹری پڑھی ہے تو مجھے آگے امریکہ جانا ہے تو مجھے ساتھی ایسا چاہیے جو میرے ساتھ امریکہ جا سکے تو وہ اپنی کیرئیر پلاننگ میں ویسے ہی ساتھی پر فوکس کرے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’دیکھا جائے تو اب جہیز پر بھی فوکس کچھ کم ہو گیا ہے کیونکہ چار صوفے، فریج، رنگین ٹی وی اور گاڑی اب مڈل کلاس کے لیے کوئی اتنی متعلقہ چیزیں نہیں رہیں۔

’اب ان کے لیے ضروری ہے کیرئیر اور سیاسی خاندانوں کے لیے پولیٹیکل کیپیٹل اہم ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر ذکریہ ذاکر کہتے ہیں کہ اب شرماتی چائے پیش کرتی لڑکیوں کا زمانہ بھی نہیں رہا ہے اور اب لڑکا لڑکی آمنے سامنے بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے سے تفصیل سے بات چیت کرتے ہیں اور کیریئر کے متعلق سوال پوچھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انسان جس بھی صورت حال میں ہو وہ اپنے معاشی تحفظ کو یقینی بنا رہا ہوتا ہے۔ ’اس سسٹم میں جذباتیت بہت کم ملے گی بلکہ جو جذباتی ہو کر شادیاں کرتے ہیں وہ شادی کے کچھ عرصے کے بعد معاشی صورت حال سے تنگ آگر ایک دوسرے سے بھی تنگ آجاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ہر طبقے میں لوگ شادی سے اپنی سماجی حیثیت بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ کم آمدنی والے گھرانوں کو جہیز چاہیے ہوتا ہے اور امیر گھرانوں میں سوشل کلاس اور پولیٹیکل کیپیٹل دیکھ کر شادی کی جاتی ہے۔

اس کی مثال انہوں نے دی کہ بیوروکریسی میں دیکھیں تو ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے خاندانوں میں بچوں کی شایدیاں اسی کلاس میں ہوئی ہے۔

’یہ باقی تمام سماجی لین دین کی مانند ہے کہ آپ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے رشتے تلاش کرتے ہیں۔ اس میں کچھ غلط یا صحیح نہیں ہے نہ ہی کوئی حیرانگی والی بات ہے، بس یہ ایسا ہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین