روسی صدر ولادی میر پوتن کی جانب سے ملک میں فوج کو متحرک کرنے کے احکامات کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
پولیس نے ملک گیر مظاہروں کے دوران متعدد شہروں میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا۔
روس میں سیاسی گرفتاریوں پر نظر رکھنے والی ایک آزاد ویب سائٹ او وی ڈی انفو کے مطابق 700 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں ماسکو میں 300 سے زیادہ اور سینٹ پیٹرزبرگ میں تقریباً 150 افراد شامل ہیں۔
او وی ڈی انفو نے بتایا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے کچھ بچے بھی ہیں۔
یہ مظاہرے اس وقت ہوئے جب بدھ (21 ستمبر) کو پوتن نے یوکرین میں لڑنے والی اپنی رضاکار فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے ریزرو فوجیوں کو بلانے کا اعلان کیا۔
ہفتے کو ماسکو میں پولیس کی بھاری نفری شہر کے ایک مرکزی علاقے میں گھومتی رہی جہاں احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ پولیس نے راہگیروں کی شناخت کی جانچ کی اور جن لوگوں کو مشکوک سمجھا انہیں گرفتار کر لیا۔
اس دوران ایک نوجوان خاتون بینچ پر چڑھ گئیں اور نعرہ لگایا کہ ’ہم توپ کا چارہ نہیں ہیں۔‘ جنہیں پولیس وہاں سے لے گئی۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں مظاہرین کے چھوٹے چھوٹے گروپ اکٹھے ہونے میں کامیاب ہو گئے اور گرفتار ہونے سے پہلے احتجاجی نعرے لگائے۔
روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ تقریباً تین لاکھ افراد کو فعال ڈیوٹی پر بلایا جائے گا لیکن اس حکم نے دیگر لوگوں کے لیے بھی فوجی سروس میں طلبی کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔
18 سے 65 سال کی عمر کے زیادہ تر روسی مردوں کو خود بخود ریزرو فوجی کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔
ہفتے کو ان شہروں میں پولیس تعینات کی گئی جہاں اپوزیشن گروپ ویسنا اور جیل میں بند اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کے حامیوں نے احتجاجی مظاہرے کرنے تھے۔ اس سے پہلے کہ مظاہرین احتجاج شروع کر سکیں پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھی۔ مظاہرین میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے۔
مشرقی سائبیریا کے شہر نووسیبرسک میں 70 سے زائد افراد کو سوویت دور کا ایک بے ضرر گانا گانے پر حراست میں لے لیا گیا جس میں امن کی تعریف کی گئی تھی۔ سائبیریا کے شہر ارکتسک میں پولیس نے احتجاج میں حصہ لینے والے مردوں کو فوج میں جبری بھرتی کے لیے طلبی کے پروانے تھمائے۔
وہ لوگ جنہوں نے انفرادی احتجاج کرنے کی کوشش کی، جس کی روسی قانون کے تحت اجازت دی گئی ہے، انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا۔
پولیس کی یہ کارروائی بدھ کو ہونے والے مظاہروں کے بعد ہوئی ہے، جب ماسکو، سینٹ پیٹرزبرگ اور دوسرے شہروں میں 1300 سے زیادہ افراد کی حراست کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر پوتن نے ہفتے کو جلد بازی میں منظور کیے گئے ایک مسودہ قانون پر دستخط کیے جس کے تحت افسران کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں، بھگوڑوں یا دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے سزا کو سخت بنایا گیا ہے۔
قبل ازیں دن کے دوران صدر پوتن کے فوج میں بھرتی کے حکم نامے کے بعد ہزاروں افراد نے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی جس کے بعد مظاہروں کا آغاز ہوا۔
روسیوں کی بڑی تعداد ملک سے باہر جانے کے لیے یک طرفہ ٹکٹ بک کرنے کے لیے پہنچی۔ پروازیں تیزی سے مسافروں سے بھر گئیں اور ٹکٹوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ ایسا بظاہر اس خدشے کی وجہ سے ہوا کہ روس کی سرحدیں جلد بند ہو سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر بھی جلد ہی روسیوں میں خوف و ہراس پھیلانے والی خبروں کا سیلاب آ گیا۔ جنگ مخالف گروپوں نے کہا کہ روس سے باہر جانے والے طیاروں کی محدود تعداد میں ٹکٹوں کی زیادہ مانگ کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور جلد ہی ٹکٹس ملنا بند ہوگئے۔
میڈیا کمپنی پولیٹیکو کے مطابق یورپی کونسل کے صدر چارلز مشیل نے یورپ پر زور دیا ہے کہ وہ ’ان لوگوں کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کریں جو کریملن کا آلہ کار نہیں بننا چاہتے۔‘
مشیل کا یہ بیان جمعے کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد اور یورپی یونین انٹیگریٹڈ پولیٹیکل کرائسس ریسپانس (آئی پی سی آر) کے تحت پیر کو یورپی یونین کے سفیروں کے اہم اجلاس سے پہلے سامنے آیا ہے۔
© The Independent