باریک سوئی، سکیل یا پھر کسی پن کی مدد سے کئی گھنٹوں ایک چاک کو تراش کر خوبصورت مجسموں میں ڈھالنے کا فن سیکھنے میں کراچی کے معاذ ندیم خان کا کئی سال کا عرصہ لگا۔
معاذ کراچی کی جامعہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں پیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ہیں۔
اپنے فن کے حوالے معاذ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ منفرد ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ اس کا تقابلہ سکیچنگ کے ساتھ کریں تو سکیچ بناتے ہوئے کسی بھی اضافی لکیر کو مٹایا جا سکتا ہے۔ جبکہ چاک سے مجسمہ بناتے ہوئے اگر کوئی اضافی کٹ لگ گیا تو پورا مجسمہ ضائع ہو گیا۔‘
ایسی صورت میں معاذ کو وہ مجسمہ نئے سرے بنانا پڑتا ہے۔
معاذ نے بتایا کہ ’ مجھے سکول کے دنوں سے ہی ڈرائنگ اور سکیچنگ کا شوق تھا اور بچپن سے ہی تخلیقی رجحان موجود تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے خود میں یہ صلاحیت دریافت کی کہ میں چاک سے بھی کچھ بنا سکتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس کی وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو بقر عید کے بعد چھٹیوں کے دن چل رہے تھے۔ ہم سکول تو جاتے تھے لیکن ٹیچرز موجود نہیں ہوتے تھے۔ اس فراغت کے ماحول میں مجھے چاک سے کچھ چیزیں بنانے کا موقع ملا تو مجھے لگا کہ مجھ میں یہ صلاحیت موجود ہے۔‘
معاذ نے بتایا کہ ’میں 2016 سے باقاعدہ چاک سے فن پارے بنا رہا ہوں۔ لیکن اس میں زیادہ بہتری کرونا وبا کے دوران آئی جب میرے پاس لاک ڈاؤن اور آن لائن تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے اس شوق کے لیے زیادہ وقت میسر تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چاک سے مجسمے بنانے کے لیے کوئی مخصوص اوزار درکار نہیں ہوتے بلکہ مجھے بلیڈ، سکیل یا کوئی بھی نوکیلی چیز میسر آ جائے تو میں اس سے چاک کو تراش کر مجسمے بنا لیتا ہوں۔‘
آغاز میں معاذ کے فن کو لوگوں نے سراہا نہیں بلکہ وقت کا ضیاع قرار دیا لیکن اب ان کے مطابق ‘جب بھی میں اپنے کسی فن پارے کی تصویر سوشل میڈیا پر لگایا ہوں لوگ اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔‘