جب کبھی کسی پنجابی دوست سے سیاسی، ملکی حالات پر بات ہورہی ہو اور بلوچستان کا ذکر آجائے تو ’سرداروں اور پنجابیوں سے نفرت‘ یہ دو موضوعات ضرور گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ٹوئٹر پر پاکستان تحریک انصاف کی ایک دوست سے گفتگو چل رہی تھی تو ان کی ہر ٹویٹ میں بھی یہ دو موضوعات لازماً شامل تھے۔
بلوچستان اور وہاں کے سرداروں سے متعلق میرے محترم دوستوں کا مطالعہ کتنا ہے؟ سوا مایوسی کے کچھ بھی نہیں۔ مگر پنجابیوں سے نفرت، اس پر ضرور بات کی جا سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب بلوچستان میں شورش عروج پر تھی، اٹھاؤ، مارو اور پھینکو کا دور دورہ تھا، تب بلوچستان کی گلیوں دیواروں پر ’بلوچستان پنجابیوں کا قبرستان‘ جیسے نعرے عام تھے۔
جب بلوچستان کی بدامنی، سیاسی پابندیاں، لوگوں کا لاپتہ ہونا جیسی خبریں ملکی میڈیا پر نہیں چلتی تھیں، تب بلوچستان سے مزدور، اساتذہ اور دوسرے پنجاب کے شہریوں کو مارنے کی خبریں معمول کے مطابق نشر کی جاتی اور چھاپی جاتی تھیں۔
شاید انہی واقعات اور حالات کی وجہ سے اس بات نے ہر پنجابی طالب علم کے دل و دماغ میں جگہ پاٸی کہ بلوچ پنجابیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر عجیب اتفاق ہے کہ اس دور اور ان حالات میں بھی بلوچ ادیب اور طلبہ کی پسندیدہ شخصیات اور انقلابی شاعر سب کے سب پنجابی تھے۔
بلوچوں کے بہترین لکھاری اور شاعر فیض احمد فیض، حبیب جالب ہیں جن کو ایسے سرکلز اور گفتگو میں یاد کیا جاتا ہے جو شاید ریاست مخالف یا کم از کم پنجابیوں سے نفرت کرنے والے ضرور سمجھے جاتے ہیں۔
بہ حیثیت طالب علم، صحافت پڑھتے ہوئے میں نے خود یہ نوٹ کیا ہے کہ ہر بلوچ طالب علم پنجابی صحافی حامد میر، وسعت اللہ خان اور محمد حنیف کو نہ صرف پڑھتا ہے بلکہ یہ لوگ ان کی ترجیحی شخصیات میں شامل ہیں اور بلوچ طالب علم خوشی سے ان کی تصاویر اپنے پروفائل پر لگائے رکھتے ہیں۔ حالانکہ نہ صرف انہیں یہ پتہ ہے کہ یہ سب پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب لوگ ان اخبارات کے لیے لکھتے ہیں اور ان چینلوں پر پروگرام کرتے ہیں جن کے لیے بلوچستان بہت دور کہیں افریقہ کے جنگلوں میں پڑا چھوٹا سا ایک گاؤں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور اس گاؤں سے خبر نیوز روم تک پہنچتے پہنچتے فوت ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے چلانے کے قابل نہیں رہتی۔ تو اس بات پر مباحثہ اور تبصرہ کرنا تو وقت کا ضیاع ہی ہو گا۔
ایک غیر بلوچ دوست (جن کے دوستوں کی اکثریت بلوچ ہے) وہ اپنا مشاہدہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کے جتنے علاقے دیکھے ہیں وہ دیوبندی ہیں تو ہر مسجد، ہر مذہبی مجلس میں سوائے پنجابی عالم دین مولانا طارق جمیل کے بیانات کے کسی اور کو اتنا نہیں سنا جاتا۔ وہ کہتے ہیں اگر نفرت ہوتی تو مولانا کے اتنے سننے والے کیوں ہوتے؟
بالکل، اگر مولانا صاحب کے اکثر بیانات کو سنا جائے تو جب بھی مولانا صاحب اپنے احساسات کو رابطے کی زبان اردو میں بیان کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتے ہیں تو پنجابی بولتے ہیں مگر یہ بلوچ لوگ پھر بھی سنتے ہیں اور انہیں مانتے بھی ہیں۔ بلکہ مجھ سے پوچھیں تو مجھے یہ پنجابی کے چند جملے پورے بیان سے زیادہ اچھے اور پیارے لگتے ہیں۔
پنجابی فنکاروں سے لے کر گلوکاروں، صوفیإ کرام، تمام سیاسی رہنماؤں اور مسلکی شخصیات کے فالورز بلوچستان میں موجود ہیں۔ وہ لوگ جو انہیں پسند کرتے ہیں، مانتے ہیں بلکہ ایک عام بلوچ تو عام پنجابی کے لیے ہمیشہ انصاف کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
قصور میں معصوم زینب کے واقعے پر بلوچستان کے ہر طبقے نے مذمت کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ ساہیوال واقعہ کو سب نے غلط کہا، اوکاڑہ کے کسانوں کے حق میں سب بلوچوں نے سوشل میڈیا پر ہمدردی کا اظہار کیا اور انصاف کا مطالبہ کرتے رہے۔
مظہر الاسلام کے افسانوں کو ہر بلوچ پڑھتا ہے، لاہور کے چوکوں اور سڑکوں کے نام وہاں کے اصل پنجابیوں کے نام سے ہوں یہ ہر بلوچ کا مطالبہ ہے، تو نفرت کہاں کرتے ہیں، کون لوگ کرتے ہیں؟
عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان کو بلوچستان میں بھی سنا جاتا ہے، کبھی یہ شکوہ تک کسی بلوچ نے نہیں کیا کہ ایک پنجابی طالب علم ستگرہ اوکاڑہ میں دفن سردار چاکر خان کے بارے میں کیوں نہیں جانتا؟ مہر گڑھ کے گیارہ ہزار سال پرانے آثار قدیمہ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتا؟ یوسف عزیز مگسی کو کیوں نہیں جانتا؟ بلکہ بلوچ طالب علم خوشی محسوس کرتا ہے جب ایک پنجابی دوست ان سے جالب، ہیر رانجھا، وارث شاہ اور سر گنگا رام کی خدمات پر گفتگو کرے۔
اور وہ ساری گل باتاں پنجابی وچ ہوں تے کچھ سراٸیکی مکس ہوٸے، اک دوجے نوں سمجھ سمجھنیڑیں میں وقت گزر جاوے اور اک واری فیر ملن دی آس دل وچ باقی رہ جائے۔
رب راکھا