شکار کا سیزن: کہیں جال تو کہیں الیکٹرانک مرغابیوں کا استعمال

موسم سرما کے دوران دنیا کے ٹھنڈے علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والی مرغابیوں کے شکار کا سیزن صوبہ پنجاب میں یکم اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے جس کے لیے محکمہ جنگلی حیات نے لائسنس کے اجرا کا اعلان کردیا ہے۔

مرغابیوں کے شکاری دریاؤں کے کنارے یا جزیروں میں گڑھے کھود کر ان میں چھپ جاتے ہیں اور ان پرندوں کے غولوں کو نقلی مرغابیاں دکھا کر نیچے اترنے پر راغب کرتے ہیں (سفیان غضنفر) 

’پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ اور ٹاپو (چھوٹا جزیرہ) غائب ہوتا جا رہا تھا، ہم ڈوبنے کے خوف سے بے تابانہ مرغابی کے شکار کے لیے لائی ہوئی بندوقیں ہوا میں لہراتے دور دریا میں تیرتی کشتی کے ملاح کو مدد کے لیے چیخ چیخ کر پکار رہے تھے۔

’دریا اچانک چڑھنا شروع ہوا تھا اور پانی دیکھتے ہی دیکھتے میری کمر تک پہنچ گیا تھا، لیکن ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہماری پارٹی کو یہاں تک پہنچانے اور مدد کے لیے دور موجود کشتی نے ہمیں ڈوبنے سے پہلے بچا لیا۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے بینکار سفیان غضنفر ستمبر 2019 کی ایک ٹھنڈی رات کو پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اس وقت پیش آیا جب وہ چند دوستوں کے ہمراہ مرغابیوں کے شکار کی غرض سے پنجاب میں ضلع خانیوال کے شہر تلمبہ کے قریب دریائے راوی میں ایک چھوٹے سے ٹاپو (جزیرے) پر موجود تھے۔

ہر سال موسم سرما میں ہزاروں شکاری مرغابیوں کے شکار کی غرض سے صوبہ پنجاب میں موجود آبی گزرگاہوں، جھیلوں اور بڑی مقدار میں کھڑے یا بہتے پانیوں کا رخ کرتے ہیں اور کئی ایک کا سفیان غضنفر کی طرح خطرناک مگر دلچسپ واقعات سے بھی سامنا ہوتا ہے۔

صوبہ پنجاب کا محکمہ جنگلی حیات ان شکاری مہمات کے لیے لائسنس جاری کرتا ہے، جن کا اس سیزن کے لیے یکم اکتوبر سے آئندہ سال 31 مارچ کے دوران اجرا کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پبلسٹی اینڈ ریسرچ جنگلی حیات محمد رمضان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محکمے نے مستند اسلحہ و شوٹنگ لائسنس کے ساتھ ہفتہ اور اتوار کو مروجہ قواعد و ضوابط کے ساتھ شکار کی اجازت کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔

محمد رمضان نے بتایا کہ یہ مرغابیاں دنیا کے ٹھنڈے علاقوں خصوصاً سائبیریا سے پنجاب کی طرف آتی ہیں اور یہاں اپنی افزائش نسل کے لیے پڑاؤ کرتی ہیں، جو ہر سال اکتوبر سے مارچ کے دوران ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان مرغابیوں کے شکار کا اعلان ہر سال پنجاب حکومت کی ہدایت پر کیا جاتا ہے، جب باقی تمام اقسام کے شکار پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شکاری ان پرندوں کا شکار کسی بھی جوہڑ یا تالاب کے کنارے کر سکتے ہیں، جبکہ نیشنل پارکس، جھیلیں، چشمے، ہیڈ ورکس یا چھوٹے پانی کے ذخائر وغیرہ پر اس سرگرمی پر پابندی ہے، کیونکہ ان مقامات پر یہ پرندے اپنی افزائش نسل میں مصروف ہوتے ہیں۔

محمد رمضان نے خبردار کیا کہ ان پرندوں کے شکار کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں لاکھوں روپے مالیت کے جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’اس شکار سے پہلے شکاری کو شوٹنگ لائسنس لینا ضروری ہے جو کہ ایک اجازت نامہ بھی ہوتا ہے اور صرف ان مرغابیوں کے شکار کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔‘

مرغابیاں آتی کہاں سے ہیں؟

مرغابیوں کے شکار کا شوق رکھنے والے سفیان غضنفر کی زندگی میں اوپر بیان کیے گئے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کے باعث انہوں نے ان پرندوں سے متعلق زیادہ مطالعہ بھی کیا۔

 انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ٹھنڈے علاقوں سے مختلف اقسام کی مرغابیاں اس خطے کا رخ کرتی ہیں اور اس ہجرت کا مقصد افزائش نسل کی غرض سے گرم اور مرطوب آب و ہوا کی تلاش ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’یہ پرندے چاند کی چھ یا سات تاریخ کو سفر کا آغاز کرتے ہیں اور اس کی روشنی کے حساب سے اڑتے ہوئے قراقرم رینج کے اوپر شوسر جھیل سے ہوتے ہوئے دیو سائی پلینز پہنچ کر پہلا پڑاؤ ڈالتے ہیں۔‘

سفیان غضنفر نے مزید بتایا کہ مرغابیاں پانی کے قریب رات بسر کرتی ہیں، اور یہ سارا راستہ ’گرین روٹ‘ کہلاتا ہے، جو ان مرغابیاں نے صدیوں سے اپنایا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اڑان کے دوران یہ پرندے ہمیشہ تکون کی شکل بناتے ہیں اور ہر غول کی ایک مرغابی رہنمائی کرتی ہے، جو لمبے سفر کی صورت میں بدل بھی سکتی ہے۔‘

سفیان نے بتایا کہ یہ مرغابیاں صبح تین بجے اڑنا شروع کرتی ہیں، جبکہ تیز دھوپ یا روشنی میں نیچے اتر کر پڑاؤ ڈالتی ہیں اور شام ہوتے ہی دوبارہ نکل کھڑی ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس خطے میں پہنچنے کے بعد یہ پرندے دریائے راوی اور دریائے سندھ کی تہہ کے ساتھ اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں اور پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخائر کے قریب قیام کرتے ہیں۔

شکار کیسے کیا جاتا ہے؟

سفیان نے بتایا کہ مرغابیوں کا شکار دو مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، بندوق یا جال کے ذریعے۔

ان کے مطابق بندوق کی نسبت جال کے ذریعے شکار سے مرغابیوں کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔

جال کے ذریعے شکار

سفیان کا کہنا تھا کہ جال کے ذریعے شکار عام طور پر تربیلا ڈیم اور منگلہ ڈیم کی جھیلوں کے قریب رہنے والی مرغابیوں کا کیا جاتا ہے، جہاں شکاری پانی کی سطح سے کچھ اوپر جال لگا لیتے ہیں۔

’سطح آب سے کم اونچائی پر ہونے کے باعث جال مرغابیوں کو نظر نہیں آتا اور وہ اس میں پھنس جاتی ہیں۔‘

سفیان کا کہنا تھا کہ جال کا استعمال کرتے ہوئے شکار میں ایک وقت میں سینکڑوں پرندے شکاری کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، جنہیں وہی ذبح کرتے اور بیچتے ہیں۔

سفیان کے خیال میں ان جیسے شوقین شکاریوں کے لیے ایک سیزن میں 10 سے 15 مرغابیاں پکڑ لینا کافی ہوتا ہے، کیونکہ زیادہ کو سنبھالنا ایک دشوار کام ہے۔

’لیکن کچھ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ زیادہ شکار کی گئیں مرغابیوں کو اپنے فریزر میں ذخیرہ کر کے سال بھر چلاتے ہیں اور دوست احباب کو تحفتاً بھی پیش کرتے ہیں۔‘

بندوق کے ذریعے شکار

سفیان نے بتایا کہ مرغابیوں کا شکار دو موقعوں پر کیا جاتا ہے، خطے میں ان کی آمد اور واپسی پر۔ اس کی وجہ ان کا جھنڈ کی شکل میں سفر کرنا ہے، جو سفر کے اختتام یا ابتدا میں ہی بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’جب بھی یہ یہاں پہنچتی ہیں تو جھنڈ کی شکل میں اکٹھی ہوتی ہیں اور اسی طرح واپسی کے سفر کے لیے اڑان بھرنے سے قبل بھی اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ان دونوں موقعوں پر شکاری بندوق لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔‘ 

سفیان نے بتایا: ’ہم زمین میں گڑھا کھود کر اسے ارد گرد جھاڑیاں لگا کر چھپا لیتے ہیں اور خود بندوق لیے، کیمو فلاج کپڑے پہن کر اس میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔‘

شکار کی غرض سے زمین میں بنائے گئے گڑھے کو ’لُکی‘ کہا جاتا ہے، جس کا سائز اس میں بیٹھنے والے شکاریوں کی تعداد کے مطابق رکھا جاتا ہے۔

مرغابیوں کے شکار کے لیے صرف یہی کچھ کافی نہیں ہوتا بلکہ شکاری کو اس مقصد کے لیے نقلی مرغابیاں بھی استعمال کرنا پڑتی ہیں۔

سفیان نے کہا کہ لُکی کے ارد گرد لگی جھاڑیوں کے باہر وہ پانی میں نقلی مرغابیاں چھوڑ دیتے ہیں، جنہیں ڈیکوئے کہا جاتا ہے، جبکہ ان کے ساتھ جھاڑیوں کے پاس پر ہلاتی ایک الیکٹرانک مرغابی، جسے ’موجو‘ کہا جاتا ہے، بھی رکھی جاتی ہے۔

انہیں دیکھ کر اوپر سے گزرتی ہوئی مرغابیاں سمجھتی ہیں کہ نیچے کھانا مل سکتا ہے۔ یوں جھنڈ نیچے آتا ہے اور شکاری گولیاں چلا کر شکار کر لیتے ہیں۔ 

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شکاری کی فائرنگ سے بچ جانے والی مرغابیاں واپس اڑ جاتی ہیں، لیکن تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد دوبارہ آتی ہیں، پھر سے نقلی مرغابیوں کو اصل سمجھ کر نیچے اترتی ہیں، پھر شکار ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ مرغابیاں دو تین میل دور تک دیکھ سکتی ہیں اور کسی جگہ غیر فطرتی حرکت یا چیز کی موجودگی میں نیچے اترنے سے گریز کرتی ہیں۔

سفیان نے بتایا کہ ماضی میں مرغابیوں کا شکار صرف اتوار کو کیا جا سکتا تھا، جبکہ شکاری کی ایک بندوق کے لیے ایک پرمٹ ملتا تھا، جس سے وہ ایک بار شکار کر سکتا تھا۔  

شکار کے لیے کہاں کہاں جا سکتے ییں؟

سفیان نے بتایا کہ مرغابیوں کے شکار کے لیے پاکستان میں موجود تمام بڑی جھیلوں کا رخ کیا جا سکتا ہے، جن میں کلر کہار جھیل، چکوال میں اچھالی، منگلہ، تربیلہ، اور بہاولپور میں لال سوہانرا جھیل شامل ہے۔

جھیلوں کے علاوہ مرغابیوں کا شکار دریاؤں کے کنارے بھی کیا جا سکتا ہے، جہاں سے یہ پرندے گزرتے ہیں۔  

مرغابی کا گوشت  

سفیان نے بتایا کہ ایک مرغابی چار سے پانچ کلو وزنی بھی ہو سکتی ہے،  جبکہ اس پرندے کا گوشت زیادہ مزیدار نہیں ہوتا اور صرف پروٹین کے ذریعے کے طور پر کھایا جاتا ہے۔

ان کے بقول: ’مرغابی کا گوشت پھوکا ہوتا، اس میں بدبو بھی ہوتی ہے، اس کا شوربہ بنائیں گے تو گوشت اس میں گھل جائے گا، اس لیے ہم اس پر تیز مصالحے لگا کر روسٹ کرتے ہیں، اس سے کچھ ذائقہ بن جاتا ہے اور بدبو بھی کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔‘

کن پرندوں کا شکار ہو سکتا ہے؟  

محمد رمضان کا کہنا تھا کہ مرغابی کا شکار وائلڈ لائف ایکٹ کے جدول اول کے پہلے، دوسرے اور تیسرے زمرے میں شامل واٹر فاؤلز یا آبی پرندوں پر مشتمل ہو گا اور شکار وائلڈ لائف ایکٹ میں پرندوں کی مقررہ تعداد سے تجاوز نہیں کرے گا۔  

وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت وہ جنگلی پرندے جنہیں عام شوٹنگ سے یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک شکار کیا جا سکتا ہے انہیں  تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلے زمرے میں فیملی ایناٹیڈے (Anatidae) میں سے تمام مرغابیاں بشمول سلاہی، غوطہ خور، سطح آب سے خوراک خوری کرنے والی مرغابیاں وغیرہ شامل ہیں۔

ایک شکاری ایک دن میں 10 تک مرغابیاں شکار کر سکتا ہے، جبکہ کاٹن ٹیل یا بالی ہنس اور نیٹاپس کورومینڈیلیانس (Nettapus Coromandelianus) کی ایک شکاری کے لیے یومیہ تعداد صرف دو پرندے مقرر ہے۔

وائلڈ لائف ایکٹ میں دیے گئے دوسرے زمرے کے تحت سفید چھاتی والا ہنس/مگ، انسر البییفر ونز (Anser Albifrons) ایک دن میں ایک شکاری صرف تین شکار کر سکتا ہے۔

تیسرے زمرے میں چہے، ٹٹیریاں، آبی ذخائر کے ساحلی پرندے اور متعلقہ آبی پرندوں کی مختلف اقسام آتی ہیں، جن میں 25 کے قریب پرندے شامل ہیں اور ان کے یومیہ شکار کی تعداد بھی مقرر ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پبلسٹی اینڈ ریسرچ محمد رمضان نے بتایا کہ اس اعلامیے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام پروٹیکٹڈ ایریاز میں ہر قسم کے شکار پر پابندی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وائلڈ لائف ایکٹ میں درج شکار کے حوالے سے تمام پابندیوں اور صدر دفتر سے گاہے بگاہے اس ضمن میں جاری ہدایات کا اطلاق بھی لازمی ہو گا۔  

لائسنس کے لیے کیا ضروری ہے؟  

محمدرمضان نے بتایا کہ شوٹنگ لائسنس کے حصول کے لیے درخواست کے ہمراہ 2300 روپے فیس اور درخواست دہندہ کے شناختی کارڈ کی کاپی اور دو تصاویر درکار ہوتے ہیں۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ شوٹنگ لائسنس کے حصول کے وقت درخواست دہندہ کے پاس اسلحے کا ویلیڈ لائسنس ہونا لازمی ہے۔  

انہوں نے مزید بتایا کہ شکاری پر قواعد و ضوابط پر عمل کرنا لازمی ہے، جن میں پی سی پی ایئر گن سے شکار کی ممانعت بھی شامل ہے۔

سفیان غضنفر کے ساتھ تلمبہ کے قریب دریائے راوی میں جزیرے پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے جیسی صورت حال سے بچنے کے لیے ماہرین مرغابیوں کے شکار کے شوقین افراد کو صوبائی محکمہ وائلڈ لائف کی ہدایات کے مطابق مہمات ترتیب دینے کی تلقین کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات