پشاور کی ایک نوجوان خاتون اقرا وحید پشاور میں منعقد ایک نمائش میں اپنا سٹال سجائے بیٹھی گاہکوں کا انتظار کررہی تھیں۔
اقرا وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ انہوں نے سٹال لگانے کے 10 ہزار روپے جمع کرائے تھے لیکن انہوں نے کہا کہ ایسی نمائشوں کے اور بھی کئی فائدے ہوتے ہیں اور ان کے مطابق دو روزہ اس نمائش کے دوران کئی گاہکوں نے ان کے فن پاروں کو کافی سراہا ہے۔
اقرا نے بتایا کہ ان کی زندگی میں اس وقت ایک موڑ آیا جب انہوں نے لاہور جانے کا ارادہ کیا۔
ہوسٹل کا بندوبست اور نیشنل کالج آف آرٹس میں 15 دن کےکورس کے 50 ہزار روپے جمع کرانا بھی اس متوسط گھرانے کے لیے ایک کڑی آزمائش تھی۔
یہ قصہ اقرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک نمائش کے دوران سنایا جس کا انعقاد پشاور میں خواتین ایوان صنعت و تجارت اور دیگر کاروباری انجمنوں نے کیا تھا۔
اس نمائش کا مقصد چھوٹی صنعتوں کو فائدہ پہنچانا اور ان کا کام مارکیٹ میں اجاگر کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقرا کا کہنا ہے کہ وہ چوتھی جماعت میں تھیں جب انہوں نے خطاطی کرنی شروع کی لیکن تب انہیں اس فن کی ’الف‘ بھی معلوم نہیں تھی۔
’بہت بعد میں ایک پاکستانی ڈرامہ ’الف‘ میرے لیے انسپریشن بن گیا۔ بے نظیر یونیورسٹی میں بی ایس فائن آرٹس کے دوران میری استاد فاطمہ نے خطاطی کے حوالے سے دماغ کی بند گرہیں کھولنے میں مدد کی اور میں نے ٹھان لیا کہ لاہور این سی اے سے ایک کورس کرنا ہے۔‘
خطاط اقرا نے بتایا کہ لاہور جانا ان کے لیے بہت مشکل تھا کیوں کہ والدین کو راضی کرنا اور انہیں قائل کرنا آسان نہ تھا۔
’تم دور نہیں جاسکتیں، اکیلے نہیں رہ سکتیں، یہ سننے کو مل رہا تھا لیکن یہ دباؤ نہیں تھا کہ تم یہ فن چھوڑ دو۔
’میں نے این سی اے سے صرف 15 دن کا کورس کا کیا تھا جس میں مجھے کچھ گُر سیکھنے کو ملے، جبکہ خطاطی پر گرفت مجھے پچھلے کئی سالوں سے اس کی مشق کرتے رہنے سے حاصل ہوئی۔ این سی اے میں جناب عارف علوی نے مجھے وہ گُر بتائے جس کے بعد میں نے کینوس پر سنہری، نیلے اور کالے رنگوں کے امتزاج سے موجودہ فن پارے بنائے۔‘
اقرا نے افسوس کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کے لیے آرٹ کی کوئی اکیڈمی نہیں ہے جس کی وجہ سے خصوصاً اس صوبے کی خواتین کا ٹیلنٹ ضائع ہوجاتا ہے کیوں کہ ہر خاتون اپنے علاقے سے دورنہیں جا سکتی۔