فیصل آباد آرٹس کونسل میں گذشتہ روز (سوموار کو) ’لوح و قلم‘ کے عنوان سے خطاطی (کیلی گرافی) کی عالمی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔
یہ نمائش انٹرنیشنل کیلی گرافی ایسوسی ایشن (ارسیکا)، پاکستان کیلی گرافی آرٹسٹس گلڈ اور کیلی گرافرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اشتراک سے ہوئی، جس میں گذشتہ ماہ ترکی میں ہونے والی خطاطی کی عالمی نمائش جیتنے والے ترکی، مصر، تیونس اور ایران کے خطاطوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معروف خطاطوں کے فن پارے بھی پیش کیے گئے۔
خطاطی کی اس نمائش میں جن غیر ملکی خطاطوں کے انعام یافتہ فن پارے پیش کیے گئے ان میں ترکی کے داؤد بکتاش، حبیب رمضان پور، ایم حسن، محمد فتح بن روزلی، عثمان چیچک، مصر کے احمد رزق عوض اللہ، محمد جابر السید ابو العلا، شیریں عبدالصابر عبد احلیم، تیونس کے کمال البحری اور ایران کے جواد خوران شامل تھے۔
پاکستان کے خطاطوں میں سے عرفان قریشی، محمد جمیل حسن نفیسی، خالد محمود صدیق، عبدالرحمان عبدو، شوکت علی منہاس، حافظ انجم محمود، محمد اجمل بیگ، نثار احمد، محسن، فریحہ، سعید ندرت، زبیر مغل، رانا غضنفر علی، صائمہ نور، اسلم ڈوگر، محمد یحییٰ، محمد عارف، ضمیر احمد، اعجاز یوسفی، محمد یونس اور گلزار احمد بٹ کے فن پارے بھی نمائش کا حصہ تھے۔
اس موقع پر فیصل آباد آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر زاہد اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس نمائش کے لیے ترکی میں ہونے والی خطاطی کی عالمی نمائش میں جیتنے والے مصوروں کے فن پاروں کو خصوصی طور پر درخواست کرکے منگوایا گیا ہے تاکہ فیصل آباد ڈویژن میں جو خطاط کیلی گرافی پر کام کر رہے ہیں وہ بیرون ملک ہونے والے کام کو دیکھ سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس میں 10 سے زائد عالمی خطاطوں کے نسخے موجود ہیں۔ پانچ قومی خطاطوں کے فن پارے موجود ہیں اور تقریباً 15 فن پارے ہم نے اس میں فیصل آباد ڈویژن سے شامل کیے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں بہت سے ممالک میں کلاسیکل خطاطی پر بہت کام ہو رہا ہے اور یہ کام زیادہ تر قلم کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
زاہد اقبال نے بتایا: ’ہمارے ہاں جو زیادہ رواج نظر آ رہا ہے وہ ماڈرن کیلی گرافی کا ہے۔ یہ کام پیش کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اگر ہماری ماڈرن کیلی گرافی ہے تو اس میں کلاسک ٹچ جو ہماری بنیاد ہے اس کو کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’کلاسک اور جدید کیلی گرافی پر بات ہو اور اس مقصد کے لیے کیلی گرافی کی نمائش کے دوسرے دن ایک ورکشاپ بھی رکھی گئی ہے تاکہ خطاطی کا شوق رکھنے والوں اور نئے طلبہ کو اس بارے میں مزید جاننے کے لیے مختلف پریزنٹیشنز دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے گفتگو سننے کا موقع مل سکے۔‘
ترکی میں ہونے والی خطاطی کی عالمی نمائش میں حصہ لینے والے مقامی خطاط نثار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انٹرنیشنل کیلی گرافی ایسوسی ایشن (ارسیکا) کی طرف سے دنیا کا سب سے بڑا کیلی گرافی کا مقابلہ ہر تین سال بعد کروایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خط ثلث چونکہ دنیا کا سب سے بڑا خط قرار دیا جاتا ہے اس لیے خط ثلث میں دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد خط نسخ اور پھر خط رقعہ، خط دیوانی، خط جلی دیوانی، خط نستعلیق اور خط ریحان وغیرہ کے مقابلہ جات ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس مقابلے میں حصہ لینے کے لیے پوری دنیا کے خطاطوں کو ایک ہی پیج پر ایک ہی سائز دیا جاتا ہے اور اس کے مطابق ہی انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قلم سے یہ مقابلہ اس لیے کروایا جاتا ہے کہ پوری دنیا سے رول کرکے یا ویسے بھی اس کو بھیجنے میں آسانی ہوتی ہے اور قلم کے خط کو ہی قط یا خط کہا جاتا ہے۔‘
نثار احمد کے مطابق قلم کے علاوہ باقی میڈیم میں جو خطاطی کی جاتی ہے اسے کرافٹ تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے خطاطی کے طور پر اس عالمی مقابلے میں شامل نہیں کیا جاتا۔
نثار احمد نے فیصل آباد آرٹس کونسل کی طرف سے خطاطی کا عالمی مقابلہ جیتنے والے خطاطوں کے فن پاروں کی نمائش کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدام فروغ فن خطاطی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے فیصل آباد اور اردگرد کے جتنے بھی خطاط، اہل فن اور اہل ذوق لوگ ہیں انہیں اس نمائش سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔‘