قلات: میت کی بےحرمتی پر ہندو برادری کا احتجاج

قلات کی ہندو برادری کے نمائندے کے مطابق ایک ہندو خاتون کی لاش کو نامعلوم افراد نے شمشان گھاٹ میں دو بار چتا سے نیچے پھینک دیا۔

جمعیت علمائے اسلام قلات کے سینیئر نائب امیر عتیق الرحمٰن شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ یہاں پر موجود سب لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ (جے یوآئی قلات فیس بک پیج) 

بلوچستان کے تاریخی شہر قلات میں صدیوں سے مقیم ہندو برادری کی ایک خاتون کی آخری رسومات میں نامعلوم افراد کی طرف سے خلل ڈالنے کے بعد احتجاج کیا گیا۔   

قلات میں موجود ہندو برادری کے افراد نے شہر میں اپنی دکانیں بند کر کے اور ہفتے کو جلوس نکال کر احتجاج کیا، تاہم انتظامیہ کی طرف سے تحقیقات اور ملزمان کو سزا کی یقین دہانی پر اسے ملتوی کر دیا۔

قلات کی ہندو برادری کے نمائندے سرجیت کمار نے واقعے کی تفصیلات انڈپینڈںٹ اردو کو بتائیں: ’ہماری برادری کے ایک فرد کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا، جن کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے دن چتا کو جلانے کے لیے شمشان گھاٹ پہنچایا گیا۔ جہاں پر آخری رسم ادا کرتے ہیں۔

’اس بار بھی اس میت کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن جب ان کے لواحقین اس روز شام کے وقت شمشان گھاٹ پہنچے تو انہیں حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ کسی نے لاش کی باقیات کو نیچے پھینک دیا تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم یہاں پر کئی صدیوں سے آباد ہیں لیکن آج تک ہمارے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوا لیکن اس واقعے نے ہمیں بہت زیادہ پریشانی کا شکار کر دیا ہے۔‘ 

سرجیت کمار نے بتایا کہ ہندوؤں میں رسم ہے کہ چتا کو ایک بار آگ لگانے کے بعد مزید تین تک دن تک وہاں پر رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ مکمل جل کر راکھ ہو جائے۔  

انہوں نے بتایا کہ میت کے لواحقین نے اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا اور باقیات کو دوبارہ آگ والی جگہ پر رکھنے کے بعد واپس آ گئے۔

ہفتے کو جب لواحقین دوبارہ گئے تو باقیات کے ساتھ میت کے کچھ حصے بھی نیچے گرے نظر آنے پرانہیں تشویش لاحق ہو گئی جس کی اطلاع انہوں نے برادری کے دیگر افراد کو بھی دی۔ 

سرجیت کا کہنا تھا کہ اس بات نے برادری میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور شہر میں کاروبارکرنے والے تمام ہندو برادری کے افراد نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے دکانیں بند کر دیں۔ 

انہوں نے بتایا: ’چونکہ ہمارا شمشان گھاٹ شہر سے تین چار کلو میٹر دور ویرانے میں واقع ہے اس لیے وہاں پر کوئی زیادہ دیر نہیں رہتا لیکن ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘

سرجیت نے بتایا کہ انہوں نے پولیس کو اطلاعی رپورٹ دے دی ہے جس میں ان سے واقعے کے حوالےسے تفتیش کا مطالبہ کیا گیا تاہم انہوں نے کسی پر بھی شک کا اظہار نہیں کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ان کے احتجاج پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او قلات نے ان سے مذاکرات کیے لیکن انہوں نے واقعے پر سخت ایکشن لیے بغیر احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا۔  

سرجیت نے کہا: ’بعد میں ایس ایس پی قلات عبدالرؤف بڑیچ ہمارے پاس آئے جو اپنی چھٹی ختم کر کے کوئٹہ سے پہنچے تھے۔ انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ اس واقعے پر سخت ایکشن لیا جائے گا ان کی یقین دہانی پر ہم نے احتجاج ختم کر دیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ایس ایس پی کے ہمراہ انہوں نے شمشان گھاٹ جا کر جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور پولیس نے اس حوالے سے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ امید ہے کہ واقعے میں جو بھی ملوث ہو گا اسے سامنے لایا جائے گا۔ 

قلات ایک تاریخی ضلع ہونے کے ساتھ ساتھ خان آف قلات کی رہائش گاہ ہونے کا بھی اعزاز رکھتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قلات کی اہمیت اس کے علاوہ ہندو برادری کے سب سے اہم کالی مندر کے وجہ سے بھی ہے جو انڈیا کے بعد قلات میں موجود ہے۔ 

سرجیت نے بتایا: ’ہم انتظامیہ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ہندو برادری کی تشویش کا خاتمہ کر کے اس واقعے کے محرکات کو سامنےلایا جائے گا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ واقعے کے حوالےسے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ جس میں ہندو برادری کے علاوہ پولیس کے اعلیٰ حکام فرنٹیئر کور (ایف سی) کے کرنل عمر فاروق سمیت دیگر تفیتشی اداروں کے اہلکار بھی شریک تھے جس میں واقعے پر غور پر کیا گیا۔ 

سرجیت نے بتایا: ’واقعے کے خلاف ہم نے اتوار کے روز ایک ریلی بھی نکالی اور ہمارے لوگوں نے اس واقعے پر اپنی تشویش اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔‘

 وہ مزید بتاتے ہیں کہ قلات کے عوام کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں جن میں جے یو آئی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، بلوچستان عوامی پارٹی، پی پی پی، تحریک لبیک سب نے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ 

سرجیت کے بقول: ’قلات کے ہندو برادری کے علاقہ بلوچستان بھر میں ہندو پنچایت کو اس واقعے نے تشویش کا شکار کر دیا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا، ‘ہم نے ضلعی انتظامیہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے کہ ہم اس دوران کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔ تاکہ وہ اس واقعے کے محرکات اور اس کے پیچھے جو بھی  لوگ ملوث ہیں ان  کو گرفتار کر کے سامنے لائیں۔‘ 

سرجیت نے کہا کہ ضلعی اور پولیس حکام نے ہمیں آئندہ بھی ہر طرح کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے کہ دوبارہ ایسا کوئی بھی عمل نہیں ہونے دیں گے۔ 

’بھائی چارے کی فضا‘

سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ہندو برادری سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا اور ان کے احتجاج کےساتھ ان کے مذہبی پیشوا مکھی گھنشام داس سے ملاقات کرکے شمشان گھاٹ کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔  

ہندو برادری کے ساتھ احتجاج میں شامل رہنے والے اور اظہار یکجہتی کرنے والے جمعیت علما اسلام کے رہنما بھی شمشان گھاٹ کے واقعے کے محرکات کو سامنے لانے اور ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 

جمعیت علمائے اسلام قلات کے سینیئر نائب امیر عتیق الرحمٰن شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ واقعہ یہاں پر موجود سب لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس لیے جب ہمیں اطلاع ملی تو ہم نے ہندو برادری سے ملاقات کر کے تفصیلات سے آگاہی حاصل کی۔‘

عتیق الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’لاشوں کی بےحرمتی کی نہ ہماری روایات اور نہ ہی مذہب اجازت دیتا ہے۔ اقلیتوں کوبھی یہاں پر مذہبی پر عمل کے ساتھ دوسرے تمام حقوق حاصل ہیں۔‘  

انہوں نے کہا: ’ہم نے انتظامیہ سے بھی اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور اس کے پس پردہ مقاصد کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہاں ہندو اور مسلمان جو صدیوں سے اکٹھے رہائش رکھتے ہیں ان میں بھائی چارے کی فضا قائم رہے۔‘

عتیق الرحمٰن نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کی سازش ہو کہ یہاں پر ہندو اور مسلمانوں میں اس واقعے کے ذریعے نفرت پیدا ہو لیکن ہم مل کر اس سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ شمشان گھاٹ میں لاش کی بےحرمتی کرنے میں جو بھی ملوث ہو گا اسے دین سے آگاہی نہیں ہو گی، کیوں کہ ہمارے دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہر کوئی اپنی مذہب میں آزاد ہے۔ 

جمعیت کے رہنما نے کہا: ’اگر ہندو برادری کے مطالبے پر عمل نہ ہوا تو ہم ان کو تمام حقوق جو آئین اور دین نے ان کو دیے ہیں ان کے حصول کے لیے ہندو برادری کا ساتھ دیں گے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان