برطانیہ میں ہندو مسلم کشیدگی:’اب حالات ٹھیک ہیں‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایشیا کپ میچ کے بعد برطانوی شہر لیسٹر میں مسلم اور ہندو برادری کے افراد کے درمیان کئی دنوں سے جاری کشیدگی رواں ہفتے عروج پر پہنچ گئی مگر پولیس کا کہنا ہے کہ اب حالات ٹھیک ہیں۔

برطانوی شہر لیسٹر میں 26 فروری 2018 کو لی گئی تصویر میں پولیس اہلکار ایک دھماکے کے جائے وقوعہ پر (اے ایف پی)

برطانیہ کے شہر لیسٹر شائر میں پولیس کا کہنا ہے کہ مسلمان اور ہندو شہریوں کے درمیان کشیدگی کے بعد اب حالات ٹھیک ہیں اور مزید بدامنی نہیں ہوئی ہے۔

لیسٹر شائر پولیس نے اتوار کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ علاقے میں پولیس کا گشت جاری ہے اور 15 افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں۔ 

ایک ٹویٹ میں لیسٹر پولیس نے بتایا کہ اتوار کی دوپہر افسران کو شمالی ایونگٹن کے علاقے میں بھی نوجوانوں کے گروہوں کے جمع ہونے کی اطلاع ملی تھی، جس پر وہ وہاں پہنچی اور مزید نقصان روکنے کے لیے علاقے کو کورڈن بھی کیا۔ 

پولیس نے ٹویٹ میں کہا: ’اس افراتفری کے کمیونیٹی پر اثرات ناقابل قبول ہیں۔ ہم لیسٹر میں تشدد اور لاقانونیت برادشت نہیں کریں گے۔ اور سکون اور بات چیت پر زور دیتے رہیں گے۔‘

پولیس نے حالات میں بہتری لانے میں مدد کرنے والے مقامی لوگوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 

ایشیا کپ میں 28 اگست کو بھارت بمقابلہ پاکستان کرکٹ میچ کے بعد لیسٹر شائر میں ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان کافی دنوں سے کشیدگی چلی آ رہی تھی جس میں ہفتے کو اس وقت اضافہ ہوا جب دونوں برادریوں سے افراد آمنے سامنے ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی میڈیا اداروں بی بی سی اور دا گارڈین کے مطابق علاقے میں رہنے والے افراد نے بتایا کہ ہندو افراد کا ایک ہجوم ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں سے گزرا۔ ماجد فریمن نے دا گارڈین کو بتایا کہ ہجوم شیشے کی بوتلیں پھینک رہا تھا اور مسجد کی جانب بڑھتے ہوئے نعرے بازی کر رہا تھا۔

ان کے بقول اس کے مقابلے میں مسلم نوجوانوں نے بھی ایک مارچ کیا جن کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس پر بھروسہ نہیں اور وہ اپنی کمیونٹی کا دفاع خود کریں گے۔

کشدیگی کے بعد مسلم اور ہندو برادری کے رہنماؤں اور پولیس نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں اور معاملے کی تہہ تک پہنچے کا تہیہ کیا ہے۔ 

صحافی کا تجربہ

دا گارڈین کے لیے یہ کشیدگی کور کرنے والی صحافی آئینہ جے خان نے رپورٹنگ کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیل دی۔ 

انہوں نے ٹویٹس میں کہا کہ انہوں نے جائے وقوعہ پر موجود ایک ہندو شخص کا انٹرویو کیا جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور انڈین پرچم اٹھایا ہوا تھا، اور جس نے خود کو آر ایس ایس کا حمایتی بتایا۔ 

آئینہ جے خان کے مطابق اس شخص کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی آزادی اس وقت تک شروع نہیں ہوئی جب تک آٹھ سال پہلے نریندر مودی نے وزیراعظم کا عہدہ نہیں سنبھالا‘، اور یہ بھی کہا کہ ’مودی کی قیادت انڈیا میں جہادی مسلمانوں کا علاج ہے۔‘

صحافی نے مزید لکھا: ’انٹرویو کے دوران اشتعال اس وقت آیا جب ایک اور شخص، آر ایس ایس کے ایک رکن نے مجھ پر تعصب کا الزام لگایا جب میں نے گذشتہ روز مارچ کرنے والوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جو انڈیا میں انتہا پسندوں کا نعرہ ’جے شری رام‘ لگا رہے تھے۔‘

ان کے بقول ایک اور شخص بحث میں شریک ہوگیا، اور ’بہت جلدی، تینوں نے مجھ پر چیخنا شروع کر دیا۔ یہ میرے لیے پریشان کن صورت حال تھی۔‘

آئینہ جے خان کے مطابق ان پر ’طالبان کا رکن ہونے کا الزام لگایا گیا۔‘

انہوں نے لکھا: ’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے پاکستان کے اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی جانچ نہیں کی اور انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر توکہ مرکوز رکھی۔‘

آئینہ نے کہا کہ لوگ پوری ہندو برادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔

انہوں نے ہندو اور جین مندروں کے رہنماؤں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان شیئر کیا جس میں ان کا کہنا تھا ’ہم بیلگراو اور نارتھ ایونگٹن کی سڑکوں پر بےحس اور انتہائی شرمناک کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا