برطانیہ کے شہر لیسٹر شائر میں پولیس کا کہنا ہے کہ مسلمان اور ہندو شہریوں کے درمیان کشیدگی کے بعد اب حالات ٹھیک ہیں اور مزید بدامنی نہیں ہوئی ہے۔
لیسٹر شائر پولیس نے اتوار کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ علاقے میں پولیس کا گشت جاری ہے اور 15 افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں۔
Our policing operation in the East Leicester area continues. There have been no further reports of disorder. We would like to thank the local community for their support in reducing tensions. Please report any incidents by phoning 101 or online via https://t.co/21NeszC2Pp pic.twitter.com/akN7LVrLmx
— Leicestershire Police (@leicspolice) September 19, 2022
ایک ٹویٹ میں لیسٹر پولیس نے بتایا کہ اتوار کی دوپہر افسران کو شمالی ایونگٹن کے علاقے میں بھی نوجوانوں کے گروہوں کے جمع ہونے کی اطلاع ملی تھی، جس پر وہ وہاں پہنچی اور مزید نقصان روکنے کے لیے علاقے کو کورڈن بھی کیا۔
پولیس نے ٹویٹ میں کہا: ’اس افراتفری کے کمیونیٹی پر اثرات ناقابل قبول ہیں۔ ہم لیسٹر میں تشدد اور لاقانونیت برادشت نہیں کریں گے۔ اور سکون اور بات چیت پر زور دیتے رہیں گے۔‘
پولیس نے حالات میں بہتری لانے میں مدد کرنے والے مقامی لوگوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
An update on our response to the disorder in areas of East Leicester.
— Leicestershire Police (@leicspolice) September 18, 2022
Thank you to everyone who has supported our work to reduce tensions and bring people to justice. pic.twitter.com/8m35WQb6J0
ایشیا کپ میں 28 اگست کو بھارت بمقابلہ پاکستان کرکٹ میچ کے بعد لیسٹر شائر میں ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان کافی دنوں سے کشیدگی چلی آ رہی تھی جس میں ہفتے کو اس وقت اضافہ ہوا جب دونوں برادریوں سے افراد آمنے سامنے ہوگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی میڈیا اداروں بی بی سی اور دا گارڈین کے مطابق علاقے میں رہنے والے افراد نے بتایا کہ ہندو افراد کا ایک ہجوم ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں سے گزرا۔ ماجد فریمن نے دا گارڈین کو بتایا کہ ہجوم شیشے کی بوتلیں پھینک رہا تھا اور مسجد کی جانب بڑھتے ہوئے نعرے بازی کر رہا تھا۔
ان کے بقول اس کے مقابلے میں مسلم نوجوانوں نے بھی ایک مارچ کیا جن کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس پر بھروسہ نہیں اور وہ اپنی کمیونٹی کا دفاع خود کریں گے۔
کشدیگی کے بعد مسلم اور ہندو برادری کے رہنماؤں اور پولیس نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں اور معاملے کی تہہ تک پہنچے کا تہیہ کیا ہے۔
صحافی کا تجربہ
دا گارڈین کے لیے یہ کشیدگی کور کرنے والی صحافی آئینہ جے خان نے رپورٹنگ کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیل دی۔
انہوں نے ٹویٹس میں کہا کہ انہوں نے جائے وقوعہ پر موجود ایک ہندو شخص کا انٹرویو کیا جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور انڈین پرچم اٹھایا ہوا تھا، اور جس نے خود کو آر ایس ایس کا حمایتی بتایا۔
آئینہ جے خان کے مطابق اس شخص کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی آزادی اس وقت تک شروع نہیں ہوئی جب تک آٹھ سال پہلے نریندر مودی نے وزیراعظم کا عہدہ نہیں سنبھالا‘، اور یہ بھی کہا کہ ’مودی کی قیادت انڈیا میں جہادی مسلمانوں کا علاج ہے۔‘
It was a tense day of reporting from Leicester for me today. I interviewed a Hindu man wearing a motorbike helmet, holding an Indian flag on Belgrave road, the site of some of the unrest yesterday between a group of Muslim and Hindu men. Here’s what happened.
— Aina J. Khan (@ainajkhan) September 18, 2022
صحافی نے مزید لکھا: ’انٹرویو کے دوران اشتعال اس وقت آیا جب ایک اور شخص، آر ایس ایس کے ایک رکن نے مجھ پر تعصب کا الزام لگایا جب میں نے گذشتہ روز مارچ کرنے والوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جو انڈیا میں انتہا پسندوں کا نعرہ ’جے شری رام‘ لگا رہے تھے۔‘
ان کے بقول ایک اور شخص بحث میں شریک ہوگیا، اور ’بہت جلدی، تینوں نے مجھ پر چیخنا شروع کر دیا۔ یہ میرے لیے پریشان کن صورت حال تھی۔‘
آئینہ جے خان کے مطابق ان پر ’طالبان کا رکن ہونے کا الزام لگایا گیا۔‘
انہوں نے لکھا: ’مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے پاکستان کے اقلیتوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی جانچ نہیں کی اور انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر توکہ مرکوز رکھی۔‘
آئینہ نے کہا کہ لوگ پوری ہندو برادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔
انہوں نے ہندو اور جین مندروں کے رہنماؤں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان شیئر کیا جس میں ان کا کہنا تھا ’ہم بیلگراو اور نارتھ ایونگٹن کی سڑکوں پر بےحس اور انتہائی شرمناک کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔‘