اکرم کا بیٹا سرکاری ملازم تھا، لیکن پچھلے دو سال سے وہ کراچی کی لانڈھی جیل میں قید ہے۔ ان کے بیٹے پر سرکاری خزانے کو 50 ہزار روپے نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ کافی کوششوں کے باوجود ان کی ضمانت نہیں ہو سکی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ بیٹے کا جرم بہت بڑا ہے۔
آج انہوں نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ ملک کے آٹھ بینکوں نے ڈالر کا ریٹ مصنوعی طریقے سے بڑھا کر پاکستان کو کھربوں روپوں کا نقصان پہنچایا ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ کیا بینکوں کا جرم چھوٹا اور میرے بیٹے کا جرم بڑا ہے؟ کیا بینکوں کے خلاف بھی انکوائری ہو گی اور انہیں بھی اسی طرح سزا ملے گی جیسے میرے بیٹے کو سزا دی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر بینکوں کو سزا نہیں دی جا سکتی تو میرے بیٹے کو بھی رہا کیا جائے۔ اکرم کا مطالبہ احتساب کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس حوالے سے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ستبمر 2013 میں 12 بینکوں نے ڈالر ریٹ ایک دن میں دس روپے بڑھایا۔
’سٹیٹ بینک نے 75 ملین ڈالرز مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر ریٹ کنٹرول کیا، لیکن بیرونی دباؤ ہونے کی وجہ سے بینکوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔‘
ترقی یافتہ ممالک میں بھی بینک غیر قانونی طریقے سے منافع کماتے ہیں لیکن ان کے خلاف ایکشن ہوتا ہے۔ جنوری 2013 میں برطانیہ کے کچھ بینکوں نے شرح سود جان بوجھ کر بڑھائی، نتیجتاً بار کلیز بینک کے چیف ایگزیکٹو رابرٹ ای ڈائمنڈ کو مستعفی ہونا پڑا اور 450 ملین ڈالرز کا جرمانہ بھی ہوا۔
لیکن پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ڈالر ریٹ بڑھانے پر کسی بینک کو جرمانہ ہوا ہو۔ اگر ڈالر سکینڈل میں بینکوں کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔
ماضی میں ڈالر ایک روپیہ بڑھانے پر اسحاق ڈار نے گورنر سٹیٹ بینک کو فارغ کر دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اس مرتبہ بینکوں کو سخت جرمانہ ضرور کریں گے اور ممکن ہے کہ جتنا ناجائز منافع بینکوں نے کمایا ہے وہ مکمل واپس کرنا پڑے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ وزیر خزانہ کے مطابق ڈالر کی اصل قیمت دو سو روپے سے کم ہے جبکہ انٹر بینک میں ڈالر 239 روپے پر لے جایا گیا اور فیوچر ٹریڈنگ 270 روپے پر بھی کی جا رہی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں نے چند ارب کمانے کے لیے پاکستان کے قرضوں میں کھربوں روپوں کا اضافہ کر دیا۔
ظفر پراچہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کچھ تجاویز بھی دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بینکوں کے خلاف جرم ثابت ہونے کے بعد سخت ایکشن لیا جائے۔ بینکوں نے ایکسپورٹر سے کم ریٹ پر ڈالر خریدا اور امپورٹر کو مہنگا کر کے بیچا، جس سے دونوں کو نقصان ہوا۔
’منافع کی رقم کے برابر جرمانہ کر کے وہ رقم ایکسپورٹرز اور امپورٹرز میں درست تناسب کے ساتھ تقسیم کی جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بینکوں کے منافع کی رقم جتنا ایک اور جرمانہ کیا جائے اور وہ سٹیٹ بینک میں جمع کروایا جائے۔
’بینکوں کے پریذیڈنٹس اور ڈالر میں ہیرا پھیری کرنے والے پورے عملے کو ہمیشہ کے لیے نوکریوں سے نکال دیا جائے۔ بنگلہ دیش میں ڈالر کا ریٹ بڑھانے والے بینکوں کے پریذیڈنٹس کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اگر بنگلہ دیش میں یہ ہو سکتا ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کتنا بیرونی دباؤ برداشت کر سکیں گے۔ زیادہ بینکوں کا تعلق بیرون ممالک سے ہے۔ منفی ریٹنگ آنے اوربھاری جرمانوں کے بعد سرمایہ کاری کی صورت حال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے، لیکن سخت فیصلہ لینا ہو گا۔
’ماضی میں شوکت ترین کے سخت ایکشن نہ لینے کی وجہ سے بینکوں کو دوبارہ ہمت ہوئی کہ وہ ملک کو کھربوں روپوں کا نقصان پہنچا سکیں۔ اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو آنے والے مزید مشکلات لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر عثمان خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بینکوں کو مطلوبہ سزا ملنے کے امکانات کم ہیں۔ یہ صرف بینکوں کی ملی بھگت نہیں ہے بلکہ مفتاح اسماعیل اور وزیراعظم بھی جوابدہ ہیں کہ ڈالر کو کیوں بڑھنے دیا گیا۔
’دو مرتبہ ڈالر بڑھا کر پیسے بنائے گئے۔ پھر ڈالر کم کر کے پیسے کمائے گئے اور اب دوبارہ ڈالر کم کر کے پیسے بنائے جا رہے ہیں۔ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ ڈالر دوبارہ بڑھا کر پھر سے پیسے بنائے جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں سٹیٹ بینک نے سوال کے باوجود یہ نہیں بتایا کہ بینکوں کو نوٹسز کب بھیجے گئے، بینکوں نے کیا جواب دیا اور انکوائری کس مرحلے تک پہنچ چکی ہے، جس سے خدشہ بڑھ رہا ہے کہ حکومت اور سٹیٹ بینک کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مارکیٹ میں ڈالر پھینکے جانے کی اطلاعات بھی ہیں، جس کی انکوائری ضروری ہے۔ حالات کے پیش نظر ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
بینکوں کو جرمانہ کرنے کا آپشن بہتر ہے لیکن 27 ارب روپے کمانے والے بینکوں کو اگر ایک ارب جرمانہ کیا جائے تو یہ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہو گا۔
’حکومت امپورٹر اور ایکسپورٹر کو اجازت دے کہ وہ بینکوں میں اپنے کلیم جمع کروا کر ہونے والے نقصان کو پورا کریں اور بینک 30 دن میں ان کلیمز کی ادائیگیوں کو یقینی بنائیں۔‘
ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ڈالر ریٹ بڑھانے کے معاملے پر بینکوں کی انکوائری جاری ہے۔ ابھی تک جرم ثابت نہیں ہوا لیکن زیادہ امکانات یہی ہیں کہ بینکوں کے خلاف واضح ثبوت موجود ہیں۔
ماضی کی طرح حکومت مصلحت سے کام لے سکتی ہے اور برائے نام جرمانہ کر کے معاملے کو رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔