گذشتہ کئی صدیوں سے دنیا میں اوسط عمر تقریباً 60 سال ہے جبکہ افغانستان میں جنگوں کی وجہ سے اوسط عمر تقریباً 45 سال تک آ گئی ہے لیکن پھر بھی ہر علاقے میں کچھ لوگ طویل عمر پاتے ہیں۔
ننگرہار کے بہسود کے رہنے والے صلاح محمد کی عمر 120 سال ہے۔ طویل عمر کے باعث انہیں اپنے بیٹوں کی تعداد تو یاد ہے بیٹیوں کے حوالے سے انہیں کچھ زیادہ یاد نہیں، تو پوتے پوتیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صلاح محمد کے 80 سالہ بیٹےغلام محمد کہتے ہیں کہ ہمارے والد کے پوتے اور پوتیوں کی تعداد 130 سے زیادہ ہے۔
افغانستان میں جنگوں کی وجہ سے ہر شخص کو اپنے ہی گاؤں کے درجنوں نوجوانوں کی موت یاد ہے جن میں خود صلاح محمد کے کئی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
اس لیے گاؤں والوں کے لیے صلاح محمد کی طویل عمر کچھ زیادہ ہی حیرت کا باعث ہے جس میں افغانوں نے دنیا کی تین بڑی طاقتوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔
صلاح محمد کی دماغی قوت اور حافظہ گذشتہ 20 سالوں سے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتا، اس لیے انہیں امریکیوں کے آنے اور جانے کا پتہ ہی نہیں لگا، جبکہ انگریزوں کے خلاف لڑائی پر بھی سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اس لیے وہ تبصرہ نہیں کر پاتے۔
روس کے خلاف لڑائی انہیں اس لیے یاد ہے کیونکہ تب بھی وہ بوڑھے تو تھے لیکن کچھ صحت مند تھے۔ تاہم پھر بھی انہوں نے اتنا ہی کہا کہ روس نے یہاں (افغانستان) میں شکست کھائی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے بچپن میں حبیب اللہ خان کی بادشاہت تھی جو 1901 میں بادشاہ بنے تھے۔
صلاح محمد کہتے ہیں کہ بہت سے ’بادشاہ میری زندگی میں گزرے ہیں، مجھےسب یاد نہیں۔ ان میں میرے پسندیدہ ظاہرشاہ تھے۔ جبکہ حبیب اللہ بھی اچھےتھے۔
غلام محمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے والد 15، 20 سال پہلے تک ہمیں اکثر پرانے زمانے کے قصے سنایا کرتے تھے، جن میں بادشاہوں کے قصے بھی شامل ہیں۔‘
صلاح محمد امان اللہ خان کے دور کے آخری اور نادر خان کے مختصردوروں اور ظاہر شاہ کے ابتدائی دور میں جوان تھے اس لیے انہیں کچھ قصے جس پر پرانے دورکی مجالس میں بہت تبصرے ہوا کرتے تھے یاد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتے ہیں کہ امان اللہ خان نے کچھ عورتوں کو ملک سے باہر بھیج دیا تھا تاکہ وہ وہاں کچھ سیکھ کر آجائیں اور افغان عورتوں کی خدمت کریں تو ان پر کفر کے فتوے لگ گئے لیکن وہ اچھےآدمی تھے۔ ’وہ توغازی تھے وہ کیسے کافر ہو سکتے تھے۔‘
سیاست سے ہٹ کر زندگی کے بارے میں صلاح محمد بتاتے ہیں کہ ’ہمارے زمانے میں لوگ بہت غریب تھے کسی کے پاس اتنا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ لوگ حج کے لیے پیدل جایا کرتے تھے اور ایک خاندان کے لیے ایک ہی کمرہ ہوا کرتا تھا۔
’امیر لوگ رات کو گیہوں کی روٹی، صبح کو جو کی روٹی کھایا کرتے تھے جبکہ غریب لوگ تو باجرے کی روٹی کھاتےتھے۔‘
غلام محمد نے کہا کہ میرے والد کھانے میں ساری چیزیں کھاتے ہیں جس میں انہیں نرم گوشت زیادہ پسند ہے اور پھل بھی شوق سے کھاتے ہیں۔
’ہمارے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کے زمانے میں لوگ سادگی پسند کرتے تھے اور ان کے درمیاں محبت اور خلوص زیادہ تھا سب لوگ اکٹھے بیٹھا کرتے تھے لیکن اب تو ہر ایک شخص دوسرے سے الگ اور دور ہے بلکہ ہر کسی کا دوست اس کا اپنا موبائل ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ مصروف رہتا ہے۔‘
غلام محمد کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے آس پاس کے علاقے میں ان کی عمر کا کوئی بھی نہیں اور جب عید کی نماز کے لیے باہر جاتے ہیں تو یہ بزرگ حضرات ان کے احترام میں ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔