ایران میں طلبہ اور انڈسٹری ورکرز نے حکومتی کریک ڈاؤن، جس میں درجنوں ہلاک اور سینکڑوں گرفتار ہوئے ہیں، کے باوجود مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف سوموار کو بھی احتجاج جاری رکھتے ہوئے دھرنے دیے۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز کے مطابق گذشتہ چند دنوں میں دارالحکومت تہران کے مختلف علاقوں میں احتجاج دیکھنے میں آئے جن میں خواتیں نے سکارف جلا کر اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
کردوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’ہینگا‘ نے حکام پر الزام لگایا ہے کہ انتظامیہ نے شمال مغربی شہر سننداج میں احتجاج کو روکنے کے لیے بھاری اسلحے (’شیلنگ‘ اور ’مشین گن سے فائر‘) کا استعمال کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کے دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکیں کیونکہ ملک بھر انٹرنیٹ کی سروس متاثر ہے۔
ہینگا کے مطابق مہسا امینی کے آبائی شہر سقیز میں بھی فائرنگ سنائی دی گئی ہے۔
ایران میں احتجاج کی لہر کا آغاز تین ہفتے پہلے ہوا جب 22 سالہ مہسا امینی کی زیر حراست ہلاکت ہوئی۔ مہسا امینی کو ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے گرفتار کیا تھا جو کہ خواتین کے لباس بشمول ضروری سکارف پر نظر رکھتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق مہسا پر زیر حراست تشدد کیا گیا تھا جب کہ ایرانی حکام کی جانب سے جاری میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہسا کی ہلاکت پہلے سے موجود بیماری کے باعث ہوئی۔
کچھ ایرانی خواتین میں اس واقعے کے بعد غصہ پایا جاتا ہے اور وہ ایرانی کے انقلابی رہنما آیت اللہ خومینی کے لائے گئے نظام کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔
ناروے کے شہر اوسلو میں موجود غیر سرکاری گروپ ’ایران ہیومن رائٹس‘ نے شمالی علاقے مہد آباد کی شمالی گیلان یونیورسٹی اور لڑکیوں کے ہائی سکول کی تصاویر جاری کیں جن میں لڑکیاں اپنا سکارف اتارے دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
اس گروپ نے ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں تہران پولی ٹیکنک کے باہر بڑی تعداد میں طلبہ موجود دکھائی دیتے ہیں جو کہ ایران میں ’غربت اور کرپشن‘ اور ’ظلم‘ کے خلاف نعرہ بازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ورکرز کی ہڑتال
سوشل میڈیا اور ’ایران وائر‘ ویب سائٹ پر جاری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تہران میں لڑکیوں کی یونیورسٹی ’الزہرہ‘ میں طالبات حکومت اور صدر ابراہیم رئیسی پر تنقید کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاری تصاویر کے مطابق دیگر مختلف یونیورسٹیوں بشمول تہران آزاد یونیورسٹی کے طلبہ نے حکومتی کریک ڈاؤن کے خلاف اپنے خون لال رنگ سے رنگے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق احتجاجوں کی مختلف نوعیت، جن میں گلیوں میں احتجاج سے لے کر طلبہ کی ہڑتالوں سے مزاحمت کے انفرادی اعمال نظر آتے ہیں اور ان کی وجہ سے حکومت کے لیے ان احتجاجوں کو ختم کرنا مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
نومبر 2019 میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ایران کے 83 سالہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف احتجاج شروع ہوئے تھے جن پر حکومت کڑا کریک ڈاؤن کیا تھا مگر موجودہ احتجاج ایرانی حکام کے لیے اس سے بڑا چیلنج دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور وائرل ویڈیو میں ایک خاتون مزاحمت کرتے ہوئے بغیر سکارف کے شمال مغربی شہر کرمان شاہ میں شہریوں کو ’مفت جپھیاں‘ دکھائی دیتی ہیں۔
اس کے علاوہ مزدور اور ورکرز کے احتجاج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایران سے باہر مقیم ایرانی میڈیا کی جانب سے جاری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فیکٹری ورکرز جنوب مغربی علاقے کے پیٹروکیمیکل پلانٹ کے باہر ٹائر جلا رہے ہیں اور اسی طرح اور ریفائنریز میں بھی ہڑتالوں کی اطلاعات ہیں۔