انڈین اداکارہ کے ایران کے خلاف احتجاج کی ویڈیو وائرل

بالی وڈ میں کام کرنے والی ایرانی اداکارہ الناز نوروزی نے ویڈیو کے ساتھ لکھا: ’دنیا کی ہر خاتون، چاہے اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو، اسے یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور جب یا جہاں چاہے پہنے۔‘

بالی وڈ کی ایرانی اداکارہ الناز نوروزی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کا مقصد ’عریانیت کو فروغ دینا نہیں ہے‘ بلکہ ’انتخاب کی آزادی کی حمایت کرنا ہے (فوٹو: الناز نوروزی انسٹاگرام اکاؤنٹ)

بالی وڈ میں کام کرنے والی ایرانی نژاد اداکارہ الناز نوروزی نے ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک انسٹاگرام ویڈیو میں اپنا پورا لباس اتار دیا۔

فلم ’سیکرڈ گیمز‘ میں کام کرنے والی اداکارہ کی جانب سے منگل کو پوسٹ کی گئی ویڈیو میں وہ ایک ایک کرکے کپڑے اتارتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔

ایران میں پیدا ہونے والی 30 سالہ اداکارہ ویڈیو کے آغاز میں اپنا حجاب اتارتی ہیں، جس کے بعد وہ اپنا برقعہ اور باقی کپڑے اتارتی ہیں۔

انہوں نے ویڈیو کے ساتھ لکھا تھا: ’دنیا کی ہر خاتون، چاہے اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو، اسے یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور جب یا جہاں چاہے پہنے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’کسی مرد یا کسی دوسری خاتون کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کرے یا اسے کوئی اور لباس پہننے کو کہے۔‘

ان کے بقول: ’ہر ایک کے مختلف خیالات اور عقائد ہوتے ہیں اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جمہوریت کا مطلب فیصلہ کرنے کی طاقت ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر خاتون کو اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوروزی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کا مقصد ’عریانیت کو فروغ دینا نہیں ہے‘ بلکہ ’انتخاب کی آزادی کی حمایت کرنا ہے۔‘

(نوٹ: یہ ویڈیو اب اداکارہ کے انسٹاگرام کے اکاؤنٹ پر موجود نہیں ہے اور اسے ڈیلیٹ یا پرائیویٹ کردیا گیا ہے۔)

بھارت کے انگریزی اخبار ’انڈیا ٹائمز‘ کے مطابق نوروزی نے صحافی سدھارتھ کھنہ کو بتایا کہ ایک زمانے میں انہیں بھی ایرانی دارالحکومت تہران میں ’اخلاقی پولیس‘ نے حراست میں لیا تھا۔ یہ فورس ایرانی پولیس کا ایک یونٹ ہے، جو اسلامی لباس کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے وقف ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’مہسا امینی نے ایسا کیا کیا کہ اخلاقی پولیس کو انہیں سڑک سے گرفتار کرنا پڑا؟ ایسا ہی میرے ساتھ تہران میں بھی ہوا۔ یہ وہاں خواتین کے ساتھ ہر روز ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ جو ہوا وہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے یا کل کسی اور خاتون کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، لہذا ہمیں بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے اداکارہ نے انکشاف کیا کہ انہیں ایک ’ری ایجوکیشن سینٹر‘ میں لے جایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’میں نہیں جانتی تھی کہ یہ کہاں ہے۔ میرے پاس اس کا پتہ نہیں تھا۔ وہ آپ کا فون لے لیتے ہیں۔ مہسا نے مزاحمت کی ہوگی اور انہوں نے ان کے سر پر اتنا مارا ہوگا کہ وہ کوما میں چلی گئیں اور مر گئیں۔‘

بقول نوروزی: ’وہ آپ کی تمام معلومات لے لیتے ہیں۔ وہ آپ کا شناختی کارڈ لے لیتے ہیں۔ وہ آپ کی ایسی تصویریں کھینچتے ہیں جیسے آپ جیل میں ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنا نام لکھنے کو کہا اور ان کپڑوں میں تمام زاویوں سے تصویریں لیں جو میں نے پہن رکھے تھے۔ پھر وہ آپ کو کہتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کو غلط قسم کے لباس کے ساتھ دوبارہ پکڑ لیا تو یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔'

22  سالہ امینی کو گذشتہ ماہ ایران کی اخلاقی پولیس نے حجاب سے اپنے بال نہ ڈھانپنے پر گرفتار کیا تھا اور کچھ دن بعد انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔

ان کی موت کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 130 سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

برطانیہ نے پیر کو ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں اور اخلاقی پولیس پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فورس نے ایرانی خواتین کے لباس اور عوام کے ساتھ برتاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے حراست اور تشدد کی دھمکیوں کا استعمال کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین