ضیا الحق کے دور کی بات ہے، ایک سکھ وفد ایوان صدر میں موجود ہے جس میں پروفیسر ڈاکٹر ہرنام سنگھ شان بھی ہیں جو سکھوں اور صوفی ازم پر کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹر ہرنام سنگھ صدر ضیا الحق سے فرمائش کرتے ہیں کہ انہیں ان کا گاؤں دھمیال جو کہ راولپنڈی میں ہے، دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس وقت ایوان صدر میں ضلع کونسل راولپنڈی کے چیئرمین راجہ بشارت جو آج کل پنجاب کے صوبائی وزیر قانون بھی ہیں، موجود ہوتے ہیں۔
ضیا الحق ڈاکٹر ہرنام سنگھ کو کہتے ہیں کہ یہاں دھمیال کے راجہ صاحب بھی بیٹھے ہیں، یہ آپ کو وہاں لے جائیں گے۔ اس کے بعد ڈاکٹر ہرنام سنگھ کو دھمیال لے جایا جاتا ہے جہاں 1923 میں وہ سردار سربن سنگھ کو چھڑ کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن اور یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی۔ سکھ ازم اور صوفی ازم پر وہ نامی گرامی سکالر تھے، جن کا انتقال 2011 میں ہوا۔ ڈاکٹر ہرنام سنگھ نے دھمیال میں کئی دن گزارے۔
دھمیال جو آج راولپنڈی کے راجوں کے حوالے سے مشہور ہے کبھی یہ نامی گرامی سکھوں کا مسکن تھا، جن میں سے ایک پروفیسر موہن سنگھ بھی تھے، جو پنجابی کے نامی گرامی شاعر گزرے ہیں۔
ان کی دس کتابیں ہیں جن میں پنجابی کی ’ساوے پتر،‘ ’بوہے‘ اور ’جندراں‘ بہت مقبول ہوئیں۔ موہن سنگھ کی ایک پنجابی نظم ’رب‘ بہت مشہور ہے۔
رب، اک گھنجل دار بجھارت، رب ایک گورکھ دھندا
کھولن لگیاں پیچ ایس دے، کافر ہو جائے بندہ
بعد میں اسی نظم سے متاثر ہو کر ناز خیالوی نے ’تم ایک گورکھ دھندا ہو‘ لکھی جسے نصرت فتح علی خان نے گا کر امر کر دیا۔ پروفیسر موہن سنگھ کی یاد میں لدھیانہ میں سالانہ میلہ بھی ہوتا ہے جس میں لوگوں کے درشن کے لیے ان کے گاؤں دھمیال کی مٹی بھی رکھی جاتی ہے۔
دھمیال کی ایک اور پہچان دگل فیملی ہے، جس کے سردار اتم سنگھ دگل یونینسٹ پارٹی کے راولپنڈی سے پنجاب اسمبلی کے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
اسی خاندان کے کرتار سنگھ دگل 1997 میں بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ وہ بھی یکم مارچ 1917 کو دھمیال میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے ایم اے انگلش آنرز کیا، بعد ازاں وہ 1942 میں آل انڈیا ریڈویو سے منسلک ہو گئے اور پھر ترقی کرتے کرتے ڈائریکٹر بن گئے۔
1973 سے 1976 تک وہ بھارت کی وزارت اطلاعات کے مشیر رہے۔ ان کے افسانوں کے چار مجموعے، دس ناول، سات ڈرامے، سات تنقیدی مضامین کے مجموعے اور دو شعری مجموعے شائع ہوئے۔ انہیں بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز پدما بھاشن بھی ملا۔
کرتار سنگھ دگل کی شادی ایک مسلمان ڈاکٹر عائشہ منہاج سے ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ’پارٹیشن وائسز‘ نامی ویب سائٹ پر موجود ایک آڈیو انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ جب وہ آل انڈیا لاہور سے منسلک تھے تو ڈاکٹر عائشہ کی بڑی بہن سلطانہ ان کی کولیگ تھیں۔ اس وقت عائشہ لیڈی ہارڈنگ کالج، نیو دہلی میں میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ بعد میں جب میں دہلی آ گیا تو اس وقت فسادات شروع ہو چکے تھے تو ان کی بہن نے مجھے کہا کہ آپ عائشہ کا خیال رکھیں۔
’ہم نے ملنا جلنا شروع کر دیا اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔ 15 اگست کی شام ہم کناٹ پیلس میں اکٹھے تھے، ہم نے اسی شام شادی کا فیصلہ کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر عائشہ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’شادی سے پہلے ہم دوست تھے۔ ہم آزادی کے دن جنتر منتر گئے اور شادی کر لی۔ میری شادی کے فیصلے پر گھر والے پریشان ہوئے لیکن بعد میں انہوں نے قبول کر لیا۔ اس وقت بین المذاہب دوستیوں کا رواج تھا اور اکا دکا شادیاں بھی ہو جاتی تھیں۔‘
کرتار سنگھ نے کہا کہ وہ لاہور میں بھی ایک مسلمان خاندان کے پاس کرائے دار کے طور پر رہتے تھے۔ انہی کے پاس کھانا کھاتے تھے اور ان کے درمیان پاکستان کے قیام پر کھل کر بحث مباحثہ بھی ہوتا تھا۔ کرتار سنگھ کے بیٹے ہرچرم سنگھ بھی دہلی سے پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔ یہی خاندان انڈیا کی ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا بھی مالک ہے۔ معروف بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا بھی اسی خاندان کے داماد ہیں۔
دھمیال کے راجوں اور دگل فیملی کے آپس میں گہرے تعلقات نسلوں سے چلے آ رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی دونوں خاندان ایک دوسرے کی غمی اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔
ساجد مہدی راجہ جو کہ وزیر قانون راجہ بشارت کے بھانجے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کم و بیش 15 مرتبہ انڈیا جا چکے ہیں، دگل فیملی اور دوسرے دھمیالی سکھ بھی ان کے گھر ہونے والی شادیوں میں شرکت کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تعلقات کی بنیاد تو تقسیم سے پہلے سے موجود تھی، تاہم تقسیم کے وقت راولپنڈی کے ارد گرد بدترین فسادات ہو رہے تھے۔ دھمیال میں چونکہ اس وقت سب سے متمول سکھ رہتے تھے، اس لیے فسادیوں کی نظر ان پر تھی۔ انہوں نے دھمیال کا گھیراؤ کر لیا۔
دھمیال کے راجے، جن کے باہم شدید اختلافات موجود تھے مگر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سکھوں کی مل کر حفاظت کریں گے۔ چنانچہ کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ دھمیال آ کر کسی سکھ کو نقصان پہنچا سکے۔
اس وقت دھمیال واحد گاؤں بچا تھا جس میں سب غیر مسلموں کو باحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھمیال سے جانے والے سکھوں کے دلوں میں راجوں کا احترام آج بھی موجود ہے اور ہمیں وہ اپنے خاندان کا فرد سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پڑدادا راجہ سیدا خان 1877 میں ذیلدار بنائے گئے۔
اس کے بعد ان کے بیٹے راجہ غلام مہدی خان ذیلدار بنے اور انہیں خان صاحب کا بھی خطاب ملا۔ 1932 میں ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی راجہ محمد خان ذیلدار بنے۔
راجہ غلام مہدی خان کے چچا زاد بھائی راجہ عباس علی خان 1935 سے 1947 تک آنریری مجسٹریٹ رہے۔ راجہ غلام مہدی کے ایک اور چچا زاد کرنل شیر خان برٹش آرمی میں تھے اور انہیں شیر بہادر کا خطاب ملا ہوا تھا۔
راجہ عباس علی خان کے بیٹے راجہ محمد اشرف وائس چیئرمین کنٹونمنٹ بورڈ راولپنڈی رہے۔ سابق وفاقی وزیر راجہ شاہد ظفر ان کے داماد ہیں۔
راجہ محمد نواز کے چھوٹے بھائی راجہ لال خان مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر اور ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ ان کے بیٹے راجہ بشارت آج بھی صوبائی وزیر قانون ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی حامد نواز راجہ پرویز مشرف دور میں تحصیل ناظم راولپنڈی رہے ہیں۔
ساجد مہدی راجہ کہتے ہیں، ’یہ مارچ 2013 کا واقعہ ہے۔ میں گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ ایک عورت جس کے ساتھ ایک نوجوان ہے وہ گاؤں میں کسی کا پتہ پوچھ رہے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا تو ان کے پاس ایک کاغذ تھا جس میں میرے والد، میرے تایا اور چچا کے نام لکھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ہی راجہ مظفر کا بیٹا ہوں۔ انہوں نے فوراً انڈیا میں اپنے بزرگوں سے بات کروائی تو انہوں نے بتایا کہ میرے چچا کرنل لہراسپ ان کے کلاس فیلو تھے۔
’مشہور شاعر باقی صدیقی کے ننھیال کے گھر کے سامنے ان کا گھر تھا۔ وہ اپنا گھر دیکھنا چاہتے تھے۔ میں انہیں ان کے گھر لے گیا جہاں اب ہماری مسجد کے امام صاحب رہائش پذیر تھے اور وہ کم و بیش 66 سال بعد اپنا گھر دیکھ رہے تھے۔ سردارنی نے کہا کہ وہ اسی گھر میں پیدا ہوئی تھیں اور راولپنڈی میں لامبا اور راولپنڈی جیولرز کے نام سے ان کی دکانیں تھیں۔ اسی نام سے اب دہلی میں ان کی دکانیں ہیں اور دہلی کے ایوان صدر کے وہ آفیشل جیولرز بھی ہیں۔
’جیسے ہی ہم ان کے گھر داخل ہوئے مولوی صاحب کا بیٹا کہنے لگا، ’ان کی ایک امانت ہمارے پاس موجود ہے۔‘
’وہ اندر گیا اور لوہے کا ایک چھوٹا سا بکس اٹھا لایا جس میں ایک پتھر تھا جس پر انگلیوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ وہ عورت بکس دیکھتے ہی خوشی سے دیوانی ہو گئی اور ’مل گیا، مل گیا‘ کہتے ہوئے انڈیا کال ملا دی۔ میں بڑا حیران تھا کہ یہ کیا ہے۔ مولوی صاحب کے بیٹے نے بتایا کہ جب انہیں یہ گھر الاٹ ہوا تھا تو اس میں یہ موجود تھا۔ میرے والد صاحب نے اسے سنبھال کر رکھا اور کہا کہ ایک دن اسے لینے اس کے مالکان ضرور آئیں گے، یہ ان کی امانت ہے۔ اس عورت نے بتایا کہ یہ پتھر انہیں خوش بختی کے طور پر دھمیال کے شاہ صاحب نے دیا تھا اور اسی پتھر کے بعد ان کے حالات بدلے تھے۔‘
دھمیال، لفظ دھمی سے ہے۔ دھمی پوٹھوہاری میں سحر کو کہتے ہیں اور آل اس روشنی کو کہتے ہیں جو سورج نکلنے سے پہلے نمودار ہوتی ہے۔ یعنی دھمیال کا مطلب ہے طلوعِ سحر۔
تقسیم کے وقت یہاں مسلمانوں اور سکھوں کی آبادی برابر تھی، لیکن سکھ پڑھے لکھے اور کاروباری پیشے سے تعلق رکھتے تھے جبکہ مسلمان کاشت کار تھے اور ان میں سے کچھ جاگیردار بھی تھے۔
ساجد مہدی راجہ کہتے ہیں کہ سب ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے لیکن مسلمان ان کے گھروں میں کھانا نہیں کھاتے تھے، بدلے میں وہ مسلمانوں کے گھروں میں خشک راشن بھجوا دیا کرتے تھے تاکہ گھر جا کر وہ خود کھانا بنا لیں۔ مسلمان ہوں یا سکھ سب طلبہ خالصہ ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔ میلے ٹھیلوں پر اکٹھے شریک ہوتے تھے۔ ایک بار ایک پوٹھوہاری ساہنگ (ناٹک) میں ایک سردار جی نے ’بری بری‘ کا نعرہ بلند کر دیا۔
ایک مسلمان نے اسے کہا، ’چپ کر او سردارا بری بری کردا ایں۔‘
سردار جی بولے ’چپ کر او، راجے، بری سب دا اے۔‘
اسی طرح ایک سردار جی بڑے رنگین مزاج تھے۔ وہ شام کو قصائی گلی میں مجرا سننے جاتے تھے اور واپسی پر ٹانگے میں اپنے ساتھ سازندے بھی ساتھ بٹھا لاتے تھے، جو میوزک بجاتے بجاتے آتے تو سارے گاؤں کو معلوم ہو جاتا کہ سردار جی مجرا سننے کے بعد گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔
ساجد مہدی راجہ کہتے ہیں کہ ’جب تقسیم کا وقت آیا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ فسادات شروع ہو جائیں گے اور انہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ دھمیال میں ہمارے اجداد کی وجہ سے کوئی فساد تو نہیں ہوا لیکن ارد گرد ہونے والے خون خرابے کی وجہ سے حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ جب انہیں واپس بھیجا گیا تو وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ عارضی طور پر جا رہے ہیں اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس آ جائیں گے۔ ہمارے اجداد نے ان کے گھروں کی حفاظت کی لیکن پھر ان کے گھر مہاجرین کو الاٹ کر دیے گئے۔ آج بھی جب وہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ ماتھا ٹیکتے ہیں۔ ان کی نسلیں دہلی میں آج بھی خالص پوٹھوہاری بولتی ہیں اور دہلی میں پوٹھوہار کے لوگوں کو آج بھی ’بھاپے‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ راولپنڈی کا کوئی خاندان آر پار سے منسلک نہیں لیکن دھمیال اور دہلی آج بھی جڑے ہوئے ہیں۔‘