پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعظم سواتی کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر ہفتے کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت نے انہیں مزید ایک روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے ریاستی اداروں کے خلاف ٹویٹ کرنے پر اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور انہیں 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد 13 اکتوبر کو مقامی عدالت نے ان کا دو روزہ ریمانڈ دیا تھا۔
سینیٹر اعظم سواتی کو میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے بعد ایف آئی اے نے ہفتے کو جوڈیشل مجسٹریٹ محمد شبیر بھٹی کے سامنے پیش کیا۔
اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان اور علی بخاری عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے سپیشل پراسیکوٹر رضوان عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’اعظم سواتی نے اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے قابل گرفت جرم کا ارتکاب کیا۔ اعظم سواتی کی ٹویٹ کے الفاظ نہایت قابل اعتراض اور ہتک آمیز ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اعظم سواتی کی ٹویٹ میں الفاظ کا چناؤ درست نہیں کیا گیا۔ ملزم نے اپنے ویری فائڈ اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی اور ان کے خلاف پیکا سیکشن کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
رضوان عباسی نے کہا کہ ’قانون کے مطابق تفتیش کے لیے 15 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جا سکتا ہے۔‘
اس کے بعد پراسیکیوٹر نے اعظم سواتی کی ٹویٹ کا متن پڑھ کر عدالت کو سنایا اور کہا کہ ’اعظم سواتی کافی عرصے سے ایسی ٹویٹ کر رہے ہیں۔ اس ٹویٹ کا کیا مطلب ہے؟‘
معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ’دو دن کے ریمانڈ میں تفتیش ہوئی ہو گی، مزید کیا کرنا باقی ہے؟‘ اس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’اعظم سواتی کا موبائل فون اور ٹوئٹر کا پاس ورڈ حاصل کرنا باقی ہے۔ ابھی یہ تفتیش کرنا باقی ہے کہ اس عمل میں مزید کس کا کردار ہے۔ کیا یہ ملزم کا ذاتی عمل ہے یا کسی اور کا بھی اس میں کردار موجود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ملزم کے پیچھے کون ہے جو فوج کے خلاف ٹویٹس کرواتا ہے، اس کا بھی سراغ لگانا ہے، لہذا ہمارے جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کی جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراسکیوٹر رضوان عباسی نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی ثبوت آئیں کہ اعظم سواتی پر الزام غلط ہے تو وہ بھی ریکارڈ میں لکھا جائے گا۔‘
اس کے بعد اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل اپنی ٹویٹ کی تردید نہیں کر رہے۔ ’اعظم سواتی ایک سیاسی جماعت کے رکن ہیں اور ٹویٹ کرنا ان کا حق ہے۔ تفتیشی اگر ڈرامہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر میں اگلی سماعت پر ویڈیوز لے کر آؤں گا۔ جنہوں نے کہا کہ کس کس محاذ پر شکست ہوئی وہ بھی دکھاؤں گا۔ جنہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں شکست ہو گئی وہ اقتدار میں بیٹھے ہیں۔‘
بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ ’اعظم سواتی نے تفتیشی سے مکمل تعاون کیا۔ ایف آئی اے نے اعظم سواتی کے گھر سے 40 اشیا اپنے قبضے میں لیں۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اعظم سواتی نے اپنا موبائل ایف آئی اے کو دے دیا؟ جس پر اعظم سواتی نے خود عدالت کو بتایا کہ ’میں نے وہ موبائل گھر سے باہر پھینک دیا تھا، اس میں میری فیملی کی تصویریں تھیں۔ میں اپنی ٹویٹ مان رہا ہوں پیچھے باقی کیا رہ گیا۔‘
بابر اعوان نے مزید کہا کہ ’اب تفتیشی نے کیا تفتیش کرنی ہے کہ پیچھے عمران خان تھا یا جو بائیڈن تھا۔ تفتیشی کو ٹویٹ چاہیے اور اعظم سواتی وہ مان رہے ہیں۔‘
سماعت کے بعد عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے آٹھ روزہ ریمانڈ کی درخواست مسترد کردی اور اعظم سواتی کو ایک روز کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر کل (15 اکتوبر کو) دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
اعظم سواتی کی میڈیکل رپورٹ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 13 اکتوبر کو ہونے والی گذشتہ سماعت پر اعظم سواتی کا ریمانڈ سے قبل اور بعد میں میڈیکل کروانے کا حکم دیا تھا۔
ریمانڈ سے قبل کیے گئے میڈیکل ٹیسٹس میں، میڈیکل بورڈ نے اعظم سواتی کو جسمانی اور دماغی طورپر مکمل فٹ قرار دیا تھا۔
میڈیکل بورڈ نے مشورہ دیا تھا کہ اعظم سواتی دل کی بیماری کی ادویات جاری رکھیں۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق 74 سالہ اعظم سواتی 2016 میں قائداعظم ہسپتال میں داخل رہے۔ ان کے دل میں تین سٹنٹس ڈالے جاچکے ہیں اور وہ ادویات استعمال کر رہے ہیں۔
میڈیکل بورڈ نے رپورٹ میں کہا تھا کہ اپنی بیماری کی وجہ سے اعظم سواتی روزانہ دو میل واک کر رہے ہیں۔
اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟
پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ریاستی اداروں کے خلاف ٹویٹ کرنے پر پیکا ایکٹ 2016 کی دفعات 500، 501، 502 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’اعظم سواتی نے بدنیتی پر مبنی اور غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے انتہائی تضحیک آمیز ٹویٹ کی اور ریاست پاکستان، ریاستی اداروں اور چیف آف آرمی سٹاف کو براہ راست نشانہ بنایا۔‘
مزید لکھا گیا کہ ’اعظم سواتی کا ٹوئٹر بیان افواج پاکستان میں تقسیم پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے۔ انہوں نے ملکی عدالتوں کو نشانہ بنایا اور غلط معلومات پھیلا کر عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ ان کی ٹویٹ سے عوام میں خوف اور دہشت کی فضا پیدا ہوئی۔‘
ایف آئی اے کے مقدمے میں اعظم سواتی کی متنازع ٹویٹ کا متن بھی شامل کیا گیا ہے۔