افغانستان میں تاریخی اور تفریحی مقامات میں باغِ بابر سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔
باغِ بابر کے سکیورٹی انچارج شیرین آقا اعظمی گذشتہ 18 سال سے یہاں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ باغ 11 سو سکوائر میٹر پر محیط ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس باغ کو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کےبانی بابر نے تقریباً 518 سال قبل کابل کو فتح کرنے کے موقع پر بنایا تھا۔
اس باغ کو دیکھنےکے لیے لوگ اب بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں جبکہ جمعےاورعید اور نوروز جیسے تہوارں کے دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں البتہ اسلامی امارات کے آنے کے بعد یہاں سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے۔
اس باغ میں کئی اہم اور تاریخی مقامات ہیں۔ باغ کے مغربی دروازے کے پاس جو مرکزی دروازہ ہے وہ اس عمارت کا ہے جسے باغ کا کارواں سرائے کہا جاتا ہے جس میں کاروبار کے لیے دکانیں، مسافروں کے لیے اقامت گاہیں اور ان کی سواریوں کے لیے اصطبل ہوا کرتے تھے لیکن اب یہاں دفاتر اور دکانیں ہیں۔
باغِ بابر کے اونچے حصے میں کئی اہم تاریخی عمارتیں ہیں جس میں سب سے اہم ظہیرالدین محمد بابر کا سادہ مقبرہ ہے جس پر نہ کوئی گنبد ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی عالیشان عمارت بلکہ بابر کی وصیت کے مطابق انہیں کھلی فضا میں دفنایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاریخی حوالوں کے مطابق بابر کو کابل کی آب و ہوا زیادہ پسند تھی اس لیے انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں کابل ہی میں دفنایا جائے لیکن ہندوستان کے شہر آگرہ میں مرنے کے بعد انہیں وہاں دفن کیا گیا لیکن 10 سال سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد فرصت ملتے ہی ان کے باقیات کو ان کے جانشین بادشاہ ہمایوں نے کابل منتقل کردیا۔
بابر کی نسل میں آنے والا ہر بادشاہ اپنی سیاسی اور جنگی مہمات اور کبھی کبھار اپنے دادا کی زیارت کی خاطر کابل آتا رہتا تھا اور باغِ بابر کی آبادی کے لیے کام کرتا رہتا۔
بابر کی قبر کے پاس اس کے بیٹے مرزا ہندال کی قبر ہے جو اپنے بھائی ہمایوں کے خلاف لڑائی میں مارے گئے تھے۔
شیرین آقا نے کہا کہ ہندال کا نام اس لیے رکھا گیا تھا کہ بابر کے گھر بیٹے کی پیدائش تب ہوئی تھی جب ہندوستان میں ان کی فتوحات کا آغاز ہوا تھا۔
مرزا ہندال کے قبر کے پاس دوسری قبر بابر کے پوتے اور ہمایوں کے بیٹےمرزا حکیم کی ہے جس نے اپنے باپ کے بعد کابل میں کئی سال تک حکومت کی اور اپنے بھائی جلال الدین محمد اکبر کے خلاف بغاوت بھی کی۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ باغ بابر کو شدید نقصان پہنچا۔ 18ویں صدی کے آخر میں بابر کے مقبرے کے احاطے میں درانی بادشاہ تیمور شاہ کی بیوی بیگم النسا کو دفنایا گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا۔
19ویں صدی کے آخر میں درانی بادشاہ عبدالرحمٰن خان نے باغ بابر کی طرف توجہ دی اور اس کے مشرقی کونے میں بابر کی قبر کے سامنے حرم سراۓ (ملکہ کا محل) بنایا اور شاہ جہانی مسجد کے نزدیک باغ بابر کا ہوٹل بنایا گیا۔
20ویں صدی میں باغ کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا لیکن 2005 سے 2009 تک آغا خان فاؤنڈیشن نے پرانے انداز میں اس باغ کی دوبارہ تعمیر اور مرمت کی جس سے اس باغ کی شادابی مکمل طور پر بحال ہوئی اور اب لوگ روزانہ سیر و تفریح کے لیے اس باغ کا رخ کرتے ہیں۔