چینی صدر کو ’غدار‘ کہنے والے ’برج مین‘ کی دنیا بھر میں پذیرائی

صدر شی کو غدار اور ڈکٹیٹر کہنے والا یہ شخص حکومت کی سخت زیرو کوویڈ پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔

چین کے طاقت ور صدر کو ’آمر اور قومی غدار‘ کہنے والے اکیلے شخص کا ایک غیر معمولی احتجاج ملک میں سیاسی اختلاف کی ایک غیر معمولی مثال اور دنیا بھر میں ان کی یکجہتی میں ہونے والے مظاہروں کا اس وقت باعث بن رہا ہے جب شی جن پنگ تیسری بار ملک کے صدر بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اس تنہا سیاسی کارکن نے بیجنگ کے تھرڈ رِنگ روڈ کے سیٹونگ پل پر دو بینرز لگائے تھے جس میں صدر شی کے بائیکاٹ اور انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ واقعہ 13 اکتوبر کو چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی 20ویں قومی کانگریس کے افتتاح کے موقعے پر سامنے آیا۔

صدر شی کو غدار اور ڈکٹیٹر کہنے والا یہ شخص حکومت کی سخت گیر ’زیرو کوویڈ‘ پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔

انہوں نے ایک بینر پر لکھا: ’ہم کھانا کھانا چاہتے ہیں، پی سی آر ٹیسٹ نہیں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں لاک ڈاؤن نہیں۔ ہم عزت چاہتے ہیں جھوٹ نہیں۔ ہم ثقافتی انقلاب نہیں بلکہ اصلاح چاہتے ہیں۔ ہمیں لیڈر نہیں انتخابات چاہیے۔ ہم شہری بننا چاہتے ہیں، غلام نہیں۔‘

جب کہ دوسرے بینر پر ’غدار آمر شی جن پنگ کو ہٹاؤ‘ تحریر تھا۔

حکام نے اس شخص کو فوری طور پر حراست میں لے لیا جس کے بعد اس واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں تاہم بعد میں انہیں تمام چینی پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا گیا کیوں کہ چینی حکومت اس طرح کے پلیٹ فارمز کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے۔

اس انوکھے احتجاج کے بعد اس شخص کو ’برج مین‘ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ ان کی اصل شناخت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔

سوشل میڈیا پر انہیں نیا ’ٹینک مین‘ بھی کہا گیا۔ 1989 میں تیانان مین احتجاج کے دوران پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ٹینک کے سامنے کھڑے شخص کی تصویر دنیا بھر میں وائرل ہو گئی تھی۔

اکیلے چینی شہری کے احتجاج کے بعد 13 اکتوبر سے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، ہانگ کانگ اور یورپ کی متعدد مغربی یونیورسٹیوں کے تقریباً 200 کیمپسز میں صدر شی مخالف پیغامات دیکھے جا رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق چین کے اندر بھی صدر شی کے خلاف احتجاج کی لہریں بھی دیکھی گئیں۔ شنگھائی کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئی ہیں جو مبینہ طور پر اسی طرح کے احتجاج کے بعد چینی حکام کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔

’آزاد چین‘ اور ’فوری جمہوریت‘ جیسے مطالبات والے بینرز یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کی کھڑکیوں پر آویزاں ہیں اور سوشل میڈیا ایکٹیوزم گروپ کی جانب سے پوسٹ کی گئیں ان کی تصاویر وائرل ہو چکی ہیں۔

امریکی ریاست میئن کے کولبی کالج میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک پوسٹر پر ’ہم چین کے عوام اس پیغام کو پھیلانا چاہتے ہیں جو سینسر شپ کے بغیر ہماری سوچ کی عکاسی کرتی ہے‘ تحریر تھا۔

امریکہ میں سٹینفرڈ، ایموری اور پارسنز سکول آف ڈیزائن کے ساتھ ساتھ لندن کے کیمبر ویل، گولڈ سمتھز اور کنگز کالج میں بھی احتجاجی بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔

میلبورن یونیورسٹی میں ایک پوسٹر پر تحریر ہے: ’ہیلو شی جن پنگ۔ یہ ریٹائر ہونے کا وقت ہے۔‘

سوشل میڈیا اکاؤنٹس آن لائن احتجاج کے لیے ’فری چائینہ‘ اور ’اینڈ شی ڈکٹیٹرشپ‘ جیسے ہیش ٹیگز استعمال کر رہے ہیں۔

ٹورنٹو یونیورسٹی میں اسی طرح کے احتجاجی بینر کے جواب میں شی کے حق میں پوسٹر نوٹس بورڈ پر لگایا گیا ہے جس میں چینی صدر کا دفاع کیا گیا ہے۔

وائس آف سی این کے مطابق گم نام چینی شہریوں کی جانب سے چلائے جانے والے ایکٹیوزم گروپ نے چین میں کم از کم آٹھ مقامات پر خفیہ طور پر حکومت مخالف نعرے اور دیواروں پر گرافٹی کی نشاندہی کی ہے جن میں شینزین، شنگھائی، بیجنگ، گوانگژو اور ہانگ کانگ شامل ہیں۔

یہ گروپ 13 اکتوبر کو پیش آنے والے واقعے کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں کی نشاندہی کر رہا ہے۔

سیچوان میں ایک عوامی باتھ روم کی دیواروں پر ’8964 کی روح کو کبھی ختم نہیں کیا جائے گا‘ تحریر تھا۔

’8964‘ تیانان مین واقعے کی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے۔ 89 سے مراد سال ہے جبکہ 6 اور 4 بالترتیب مہینہ اور تاریخ ہیں۔

بیجنگ میں چائنا فلم آرکائیو آرٹ سینما کے واش رومز میں بھی ’آمریت کو مسترد کریں‘ کے نعرے دیکھے گئے۔

گروپ کے ایڈمنسٹریٹر نے بلومبرگ کو بتایا کہ ’ہم میں سے بیشتر چین سے باہر کام کرتے ہیں یا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں لیکن ہم سب چین میں پلے بڑھے ہیں۔ زیادہ تر طلبہ جنہوں نے بینرز لگائے ہیں وہ اسے ہمارے اندر جمع غم و غصے کو آواز دینے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں جسے حکومت اور اس کی سنسرشپ مشینز نے اتنے عرصے سے دبا رکھا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریڈیو فری ایشیا کے مطابق شنگھائی کے 67 سالہ ٹیچر گو گوپنگ، جنہوں نے مبینہ طور پر پل پر ہونے والے مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی تھیں، کو حراست میں لیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے لاپتہ ہیں۔

ریڈیو فری ایشیا امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے مالی اعانت سے چلنے والا ایک میڈیا پروجیکٹ ہے۔

’برج مین‘ کے احتجاج پر ردعمل ایک ایسے حساس وقت میں سامنے آیا ہے جب چینی صدر باضابطہ طور پر تیسری پانچ سالہ مدت صدارت حاصل کر کے ماؤ زے تنگ کے بعد ملک کے سب سے طاقتور رہنما بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کے خلاف کوئی بھی بات یا مخالفت انتقامی کارروائیوں کا باعث بن سکتی ہے جس میں طویل قید کی سزا بھی شامل ہے جیسا کہ 2018 میں ایک خاتون نے صدر شی کے ’ظلم‘ کی مخالفت میں ان کے پوسٹر کو بگاڑ دیا تھا۔ بعد میں انہیں ایک نفسیاتی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

جمعے کو کئی افراد نے چینی سوشل میڈیا سائٹ ویبو پر ’آئی سا اِٹ‘ ہیش ٹیگ کا استعمال کیا جو ٹرینڈ بن گیا تاہم اسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔

ایک پوسٹ نے لکھا گیا: ’میں نے اسے دیکھا، ہم سب نے دیکھا۔‘

بہت سے صارفین نے ماؤ زیڈونگ کی مشہور انقلابی کہاوت ’ایک چھوٹی سی چنگاری وسیع سبزہ زار کو آگ لگا سکتی ہے‘ کو بھی کوٹ کیا۔

تاہم کئی صارفین نے دعویٰ کیا کہ ان کے اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے ہیں۔ چین کے انٹرنیٹ فائر وال نے مبینہ طور پر ’برج‘، ’جرات‘ اور ’بیجنگ‘ جیسے الفاظ کو بھی ہٹا دیا۔

چین میں جاری یہ احتجاجی سرگرمی ’ناٹ مائے پریزیڈنٹ‘ احتجاج سے ملتی جلتی ہے جو 2018 میں بیرون ملک یونیورسٹیوں میں حکومت کی جانب سے صدارتی مدت کی حد کو ختم کرنے کے بعد سامنے آیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا