پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی الیکشن کمیشن سے توشہ خانہ کیس میں اثاثہ چھپانے پر نااہلی اور اندراج مقدمہ کا حکم ملنے کے بعد سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔
ایک طرف پی ٹی آئی کارکن مختلف شہروں میں اس فیصلہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تو دوسری طرف حکمران جماعتیں اس فیصلے کا خیر مقدم کر رہی ہیں۔
لیکن اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کی نااہلی کا فیصلہ عدالتوں نے بھی برقرار رکھا تو سابق حکمران جماعت کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا اور کیا وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکیں گے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کی مختلف رائے سامنے آ رہی ہے۔ بیشتر کا خیال ہے کہ عمران خان کی نااہلی سے ان کے بیانیہ اور پارٹی کی سیاست پر منفی اثر پڑے گا، جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلوں سے نواز شریف کا سیاسی کردار ختم نہیں ہو سکا، عمران خان کا بھی سیاسی مستقبل تاریک ہونے کے زیادہ امکانات دکھائی نہیں دیتے۔
عمران کی نااہلی سے پارٹی پر اثرات
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی سے متعلق فیصلے میں انہیں نااہل قرار دے کر مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کا اعلان کر چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی نااہلی کب تک برقرار رہتی ہے۔
سلمان غنی کے مطابق ’اگر انہیں موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل قرار دیا جاتا ہے تو صورت حال آئندہ انتخاب میں پی ٹی آئی کے حق میں ہو سکتی ہے اور یہ فیصلہ اگلی مدت یا پانچ سال کے لیے ہوا تو پھر تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن کافی کمزور ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مائنس ون کا فارمولا پاکستان میں کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، یہی فارمولا پہلے نواز شریف کے خلاف استعمال ہوا، مگر کارگر نہیں رہا اب عمران خان کے خلاف وہی فارمولا لگایا جا رہا ہے جو کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو عدالت سے ریلیف مل سکتا ہے البتہ اس فیصلے ان کی اخلاقی پوزیشن متاثر ہو گی۔ وہ جو سب سیاسی لیڈروں کو ’چور چور‘ کہتے رہے اب ان کی اپنی پوزیشن بھی زیادہ بہتر نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ کیونکہ عمران خان شفافیت کے دعویدار تھے اور خود کو پارسا سمجھتے تھے اب اس فیصلہ سے وہ صادق اور امین کا تاثر بھی ہوا میں اڑ گیا۔
سینیئر صحافی ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر موجود ہوتے ہوئے وہ اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر تاحیات نااہل کر دیا گیا تھا جو انہوں نے وصول بھی نہیں کیا تھا۔ جس طرح سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن کے فیصلے نے عمران کے اس تاثرکو نقصان پہنچایا ہے۔
ندیم رضا کے بقول ’عمران خان کی نااہلی کے فیصلہ سے سب سیاسی لیڈر برابر ہو گئے ہیں اور اب یقینی طور پر نوازشریف بھی واپس آنے کو تیار ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ پہلی بار نہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کو نااہل قرار دیا گیا ہے اس پہلے نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کو بھی نااہل قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس سے کسی سیاسی لیڈر کی سیاست ختم نہیں ہو سکی، نہ ہی عمران خان کی طویل عرصہ متاثر ہو گی۔‘
ندیم نے کہا کہ اگر عمران خان کی نااہلی طویل عرصہ تک برقرار رہی تو تحریک انصاف اندرونی خلفشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ پہلے تو چیلنج پارٹی کی سربراہی کا ہو گا، پارٹی رہنما ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر یا پرویز خٹک اس پوزیشن میں نہیں کہ پارٹی قیادت عمران کی طرح سنبھال سکیں۔
دوسرا یہ کہ پارٹی کارکن بھی عمران خان کے علاوہ کسی پر بھر پور اعتماد نہیں کرتے، جس طرح حالیہ ضمنی انتخاب میں عمران خان چھ نشستوں پر کامیاب ہوئے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان پر پی ٹی آئی ووٹر اور کارکن مکمل اعتماد رکھتے ہیں، مگر کسی اور لیڈر کو بطور سربراہ ایسے ساتھ نہیں دیں گے۔
ملکی سیاست پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی کا جو فیصلہ دیا ہے اس تفصیلی اور تحریری فیصلہ آنے تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی نااہلی کتنی مدت کے لیے ہے اور کن سیکشنز کے تحت فیصلہ سنایا گیا ان میں کیا حوالے دیے گئے ہیں اس کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
ندیم رضا کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کا ردعمل دیکھنا ہو گا کہ اس سے ملکی سیاست میں کتنی تبدیلی آئے گی اگر پی ٹی آئی انتشار کی طرف گئی تو ان کے لیے مزید قانونی مشکلات بڑھ سکتی ہیں اگر صرف پر امن احتجاج ہوتا ہے، تو عمران خان کی شہرت پر کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کی بجائے حکومتی جماعتیں عہدے بانٹ رہی ہیں۔
’اگر تحریک انصاف کو آئندہ انتخاب میں شکست دی جا سکتی ہے وہ ہے حکومتی کارکردگی میں بہتری معیشت کی بحالی، مہنگائی کا خاتمہ۔‘
ندیم رضا کے مطابق اب قبل از وقت انتخابات کا تو کوئی امکان نظر نہیں آتا، مزید سیاسی استحکام آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد آ جائے گا اور حکومت کو وقت ملے گا اس عرصہ میں اگر عوامی مشکلات دور ہو گئیں تو پھر حکومتی جماعتیں سیاسی طور پر فائدہ اٹھا سکیں گی۔
تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کیس کے فیصلے سے عمران خان کے بیانیہ پر تو منفی اثر پڑے گا، مگر حکمران جماعتیں اس فیصلہ کو کس طرح عوام میں مقبول کراتی ہیں یہ سب سے اہم ہے جو کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ حکومتی جماعتیں پروپیگنڈے کے محاذ پر کافی پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کیونکہ ابھی تک اپنے علاوہ کسی پارٹی رہنما کو اپنا متبادل قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کے برابر کسی کے پاس کبھی اختیار رہا جس طرح نواز شریف کی سیاست کو شہباز شریف اور مریم نواز نے ان کی نااہلی کے دوران سہارا دیا، عمران خان کے ساتھ اس طرح کی کوئی حمایت موجود نہیں ہے۔
اگر وہ کسی پارٹی رہنما کو پی ٹی آئی کا سربراہ بنائیں گے تو ان کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کارکردگی سے ہی لگایا جا سکے گا، پارٹی میں تو پہلے ہی دھڑے بندیاں موجود ہیں، ان حالات میں عمران خان کی موجودگی میں پارٹی چلانا بڑا چیلنج ہو گا۔