دیوالی قدیم ہندو تہوار ہے جسے ہرسال موسم بہار میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار اندھیرے پر روشنی اور بُرائی پر اچھائی کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
آتش بازی اس تہوار کی اہم رسومات میں شامل ہے اور ہندو کمیونٹی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
سندھ میں آباد ہندو کمیونٹی دیوالی کے تہوار کے لیے زیادہ تر سامان آتش بازی فیصل آباد سے خریدتی ہے۔
اس سلسلے میں دیوالی سے دو ماہ قبل ہی آرڈرز کی بکنگ شروع ہو جاتی ہے اور پھر 20 اکتوبر تک تیار مال فیصل آباد سے سندھ بھجوانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
فیصل آباد کا نواحی قصبہ مکوآنہ انگریز دور سے ہی آتش بازی کے سامان کی تیاری کے حوالے سے معروف ہے۔
یہاں اس کام کا آغاز لگ بھگ 140 سال قبل 1880 کی دہائی میں ہوا تھا جسے بعد ازاں ایئربیس پر جہازوں کی آمدورفت سے پہلے پرندوں کو اڑانے کے لیے ہوائیاں بنانے کے کام سے فروغ ملا۔ اب یہاں 40 سے 50 چھوٹے کارخانوں میں 600 کے لگ بھگ افراد کام کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں انگریز دور میں جاری کیے گئے لائسنس نسل درنسل آگے منتقل ہو رہے ہیں اور انہی خاندانوں کے لوگ اب بھی ایئرفورس اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے لیے ہوائیاں تیار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں ملک بھر میں شادیوں اور خوشی کی دیگر تقریبات کے لیے بھی یہاں سے آرڈر پر مال تیار کروایا جاتا ہے۔
مکوآنہ میں ظفر اینڈ سنز فائرورکس کے نام سے آتش بازی کا سامان تیار کرنے کے کاروبار سے وابستہ ظفر اقبال نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دیوالی کے لیے تیار ہونے والا آتش بازی کا زیادہ تر سامان سندھ جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سانگھڑ، میر پور خاص، عمر کوٹ، تھر، مٹھی اور دیگر علاقوں سے جو لوگ دیوالی کے حوالے سے آتش بازی کا سامان خریدنے آتے ہیں انہیں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دو ماہ کے لیے خصوصی پرمٹ جاری کیے جاتے ہیں جس کے تحت انہیں آتش بازی کا سامان تیار کروانے اور اس کی نقل وحمل کی اجازت ہوتی ہے۔
’وہ ادھر آتے ہیں اور مختلف لوگوں سے مال خریدتے ہیں اور 60 دن میں جو ان کی خریداری ہوتی ہے آتش بازی یا اور کوئی چیزیں وہ خریدتے ہیں اور ادھر جا کر اپنا خوشی اور دیوالی مناتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ دیوالی پر آتش بازی کی جو مصنوعات زیادہ استعمال ہوتی ہیں ان میں کیک ،شوٹر، شارٹس، سٹک، فوارہ انار اور پٹاخے وغیرہ شامل ہیں۔
’یہ لوگ زیادہ آواز والی چیز پسند کرتے ہیں کہ زیادہ آواز والی چیز چلے گی تو ہم دیوالی کی خوش منا سکیں گے۔‘
ظفر اقبال کے مطابق یہ آتش بازی پہلے چین اور انڈیا وغیرہ سے بن کر آتی تھی لیکن پھر اس کی امپورٹ پر پابندی لگ گئی جس کے بعد مقامی کاریگروں نے گاہکوں کی ڈیمانڈ پر یہ اشیا یہیں تیار کرنا شروع کر دیں۔
’اس کی قیمتیں مختلف ہیں، جو اچھا بنائے گا اس کی اچھی قیمت ہے، جو نارمل بنائے گا اس کی نارمل قیمت ہے۔ ادھر صرف ہم نہیں ہیں، تقریبا 40 سے 50 لائسنس ہیں اور کام ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب کوئی چیز تیار کی جاتی ہے تو اس کو چلا کر چیک کیا جاتا ہے اور پھر معیار کے مطابق اس کا ریٹ طے کیا جاتا ہے۔
’یہ پٹاخے وغیرہ جو ہیں یہ دس روپے کی ڈبی ہے، کوئی بیس روپے کی ڈبی ہے، کوئی 15 روپے کی ڈبی ہے یہ ایسے بکتے ہیں۔ یہ 100 روپے کی سٹک ہے، 90 روپے کی اور 80 روپے کی بھی ہے ایسے ہی انار ہے،50 روپے کا ہوگیا، 30 روپے کا ہو گیا، اس کے بھی مختلف ریٹ ہوتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ مال ہول سیل ریٹ پر فروخت کرتے ہیں جبکہ پرچون میں فروخت کرنے والے ان چیزوں کو اپنے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔
سیفٹی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ سول ڈیفنس والے جن حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کا کہتے ہیں وہ اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں جبکہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو بھی ملازم نہیں رکھا جاتا ہے۔
کاریگروں کی تربیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نئے آنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے کسی کے شاگرد بنیں۔
’وہ پہلے ادھر یہ کام دیکھتے ہیں پھر کسی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور پھر کاریگر بنتے ہیں۔ یہاں تین چار استاد گھرانے ہیں جن سے کافی لوگوں نےتربیت لے کر یہ کام کرنا شروع کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آتشبازی بنانے کے لیے جاری ہونے والے لائسنس کی ہر سال ڈپٹی کمشنر، پولیس، سول ڈیفنس اور دیگر متعلقہ محکموں سے تجدید کروانا لازمی ہے اس کے بغیر اگر کوئی کام کرے تو متعلقہ ادارے اس کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔
ظفر اقبال کے مطابق اگر حکومت اس کام کو کمرشل قرار دے تو اس سے نہ صرف اسے ٹیکس کی مد میں آمدن حاصل ہو گی بلکہ بہتر سے بہتر آتش بازی تیار کر کے اسے بیرون ملک برآمد بھی کیا جا سکے گا۔