صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ میں ہولی کے موقع پر جشن اکثر مردوں کے لیے منعقد کروائے جاتے تھے مگر دو سال سے نوجوان لڑکیوں کی کاوشوں سے آخر کار خواتین کے لیے بھی علیحدہ جشن منانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
اسی سلسلے میں نوجوان مہک کماری نے اپنی سہیلیوں کے ہمراہ چندہ اکٹھا کر کے عمر کوٹ شہر کے دیوی ماتا مندر میں ہولی کا تہوار منانے کے لیے پروگرام منعقد کروایا۔
انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مہک کماری نے کہا کے ’ہم اسے شہر کہتے ہیں لیکن یہ چھوٹا سا گاؤں ہے۔ پہلے ہم چھت پر چڑھ کر مردوں کو دیکھتے تھے وہ ہولی کا تہوار بڑے دھوم دھام سے مناتے تھے ایک دوسرے کو رنگ لگاتے تھے اور خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔‘
’ہم لڑکیاں گھروں سے رنگولی والے دن باہر ہی نہیں نکلتی تھیں۔ ایک تو ہمارے لیے کوئی علیحدہ سے پروگرام نہیں ہوتا تھا اور باہر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں کے گھر بھی نہیں جاتے تھے، بس گھر میں ہی ایک دوسرے کو رنگ لگاتے تھے۔‘
مہک کماری بتاتی ہیں کہ ’ہم لڑکیاں جو مندر میں گیتا پڑھنے آتی تھیں، ہم نے اپنے استاد سے گزارش کی کہ پروگرام منعقد کروانے میں ہماری مدد کی جائے، تو انہوں نے کہا کے ٹھیک ہے آپ اس مرتبہ علیحدہ سے پروگرام کریں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے یہی پروگرام پچھلے سال بھی کیا تھا لیکن اس میں خواتین کی شرکت کم تھی اس کی ایک وجہ کافی عورتوں کو معلوم نہیں تھا اور ان کو لگا کے عورتوں اور مردوں کا اکٹھا پروگرام ہے۔‘
’اس بار ہم نے گھر گھر جا کر اطلاع دی اور پورے ہفتے سے ہم روزانہ کی بنیاد پر ڈانڈیا کھیلتے تھے، گربا کرتے تھے اور کل ہم نے ہولکا کو بھی جلایا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں عورتیں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے کافی محلوں سے آتی تھیں، ان کے لیے یہ تفریح کے ساتھ ساتھ گفتگو کا مرکز بھی بن گیا۔‘
’ہمارے مردوں نے ہمیں اس قدم پر سراہا اور ہماری مالی و اخلاقی مدد بھی کی۔‘
مہک کے مطابق ’ایک ہفتہ طویل پروگرام کے بعد ہم نے ایک بڑا پروگرام کیا جس میں صرف خواتین تھیں اور اس پروگرام میں بچوں نے تھیٹر پیش کیے، ہمارے لوک گیت بھی گائے اور بڑی بات کے عورتوں نے رقص بھی کیا۔‘