’امارت اسلامی کے آنے کے بعد زیادہ تر روایتی ٹی وی چینل مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں، باقی بچے کچے چینلز نے تنخواہیں کم کر دیں جس سے گذر بسر مشکل ہو گیا تھا یوں میں نے ملازمت چھوڑ دی۔‘
یہ کہنا ہے کابل کے 31 سالہ کیمرہ مین مجتبیٰ اعظمی کا، جن کا میڈیا پر کام کا 15 سالہ تجربہ ہے۔
مجتبیٰ بتاتے ہیں کہ پہلے ان کے ساتھ پانچ آدمی کام کرتے تھے لیکن اب صرف ایک کو کام مل رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پارٹ ٹائم میں ایک پروڈکشن کمپنی چلاتے تھے لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا کام کم ہو گیا۔
مجتبیٰ کے مطابق وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہزاروں لاکھوں افغان نوجوانوں کی طرح انہوں نے بھی 15، 20 یورپین ملکوں کے ویزے کے لیے درخواستیں دیں لیکن ناکامی ہوئی۔
’پاکستان اور ایران کا ویزہ باآسانی ملتا ہے اس لیے ہم مجبور ہیں کہ پاکستان جائیں اور اگر موقع ملا تو وہاں کام کریں اور اپنے کیس کو آگے لے جائیں۔‘
مجتبیٰ نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں بے روزگاری 80 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ ’یہ سب لوگ مشکلات کی وجہ سے افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘ تاہم بے روزگاری کے حوالے سے مستند اعداد و شمار موجود نہیں۔
ایک اور نوجوان ڈاکٹر مفید اللہ نے بتایا کہ وہ ننگرہار گورنمنٹ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال سے زیادہ عرصے سے بغیر کسی روزگار کے گھوم رہے ہیں کیونکہ امارت اسلامی نے ایگزٹ امتحان نہیں لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا دعویٰ تھا کہ ہزاروں ڈاکٹر فارغ گھوم رہے ہیں۔
’پہلے لاکھوں کی تعداد میں ان پڑھ نوجوان ایران اور پاکستان میں کام کی خاطر گئے اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی باری ہے۔‘
یوتھ یونین کے رکن شاہ ولی خان نے، جو Positive Change کے نام سے سول تحریک بھی چلاتے ہیں، بتایا کہ لگ بھگ 15 فیصد افغان نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں اور یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے جس سے خدشہ ہے کہ ملک کی مشینری ایک بڑے مسئلے سے دوچار ہو جائے گی۔
انہوں نے حکمران طالبان کو مشورہ دیا کہ وہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعے فراہم کریں تاکہ ان کا ملک سے جانے کا عمل کم ہو جائے۔
’ہمارے اصحاب اقتدار کو اندازہ نہیں کہ یہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔ انہیں اس فرار کا راستہ روکنا بے حد ضروری ہے۔‘