پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے منگل کو کہا ہے کہ کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ ملک سے کیوں گئے اور کس کے کہنے پر گئے۔
ایک نجی ٹی وی سےگفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف واقعے کی اعلیٰ سطح پر مکمل تحقیقات کرائی جائیں اور حکومت سے اس معاملے پر درخواست کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سانحے‘ کو جواز بنا کر من گھڑت باتیں کی جا رہی ہیں اور کوئی نہ کوئی جواز بنا کر ادارے کے خلاف الزام تلاشی کی جاتی ہے۔
’ادارے پر الزام تراشی کا سلسلہ اب بند ہونا چاہییے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کینیا کی حکومت نے قبول کیا ہے کہ غلطی سے یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
’حکومت سے درخواست کی ہے کہ جو لوگ الزام لگا رہے ہیں ان کے خلاف پوری کارروائی کی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے جتنے فوجی آپریشن ہوئے ارشد شریف نے وہاں جا کر کوور کیے۔ اس افسوس ناک واقعے کو بنیاد بنا کر کس کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ کون ارشد شریف کے قتل کو بنیاد بنا کر فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے اور مہم چلا رہا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
منگل کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا کہ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اس واقعے کی تحقیقات کرے گا۔
مریم اورنگزیب کے مطابق عدالتی کمیشن کے سربراہ حقائق کے لیے سول سوسائٹی اور میڈیا سے بھی کسی رکن کو شامل کر سکتے ہیں۔
Prime Minister Shehbaz Sharif’s statement: Pakistan to set up judicial commission to investigate Arshad Sharif’s murder.@CMShehbaz
— PTV News (@PTVNewsOfficial) October 25, 2022
1/2 pic.twitter.com/OjhBuhh9Hb
ارشد شریف کی میت پیر اور منگل کی درمیانی شب نیروبی سے براستہ دوحہ اسلام آباد روانہ کردی گئی ہے جس کے بارے میں توقع ہے کہ وہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان پہنچ جائے گی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے پیر کو رات گئے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ارشد شریف کا جسد خاکی آج رات ایک بج کر 25 منٹ پر نیروبی سے دوحہ کے لیے قطر ایئر لائنز کی پرواز سے وطن واپس لائی جا رہی ہے۔
’دوحہ سے یہ پرواز 25 اکتوبر کو شام سات بجکر 35 منٹ پر روانہ ہوگی اور بدھ کی رات تقریباً ایک بجکر پانچ منٹ پر اسلام آباد پہنچے گی۔‘
بیان کے مطابق کینیا میں پاکستانی ہائی کمشنر سیدہ ثقلین نے نیروبی ایئرپورٹ پر انتظامات کی نگرانی کی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی کینیا کے صدر سے گفتگو کے نتیجے میں قانونی امور کو تیزی سے مکمل کیا گیا، جس کے بعد ارشد شریف کی میت کو اسلام آباد روانہ کیا گیا۔
ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا میں مبینہ طور پر پولیس نے گولی ماری تھی، جس کے باعث وہ چل بسے۔
کینیا کی نیشنل پولیس سروس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں ’مگادی کے علاقے میں پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا، جس کے نتیجے میں 50 سالہ پاکستانی صحافی ارشد محمد شریف ایک پولیس آفیسر کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں چل بسے۔‘
پولیس کے مطابق: ’واقعے کے وقت مقتول کے ہمراہ ان کے بھائی خرم احمد بھی گاڑی میں سوار تھے۔‘
کینیا کی پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پینگانی پولیس نے ایک کار چوری ہونے کی اطلاع پر کارروائی شروع کی اور گاڑی کا پیچھا کرنے والے افسران نے مگادی پولیس کو اطلاع دی جنہوں نے سڑک پر ناکہ لگایا۔
بیان کے مطابق مقتول کی گاڑی ناکے پر رکے بغیر گزر گئی جس پر اسی وقت فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ارشد شریف کی موت واقع ہوگئی۔
مزید کہا گیا کہ نیشنل پولیس سروس کو اس بدقسمت واقعے پر افسوس ہے اور حکام مناسب کارروائی کے لیے اس واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب کینیا کے معروف اخبار ’دا سٹار‘ نے پولیس کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ صحافی ارشد شریف کی موت غلط شناخت کے باعث پولیس کی فائرنگ سے ہوئی۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے شائع ہونے والے اخبار دا سٹار کے مطابق مگادی ہائی وے پر اتوار کی رات ارشد شریف کو پولیس نے اس وقت سر میں گولی مار کر قتل کیا جب انہوں نے اور ان کے ڈرائیور نے مبینہ طور پر ایک پولیس ناکے کی خلاف ورزی کی تھی۔
پولیس نے کینیا کے اخبار کو بتایا کہ ارشد شریف مگادی قصبے سے نیروبی جا رہے تھے جب پولیس افسران کے ایک گروپ کی نگرانی میں ایک پولیس ناکے پر انہیں روکا گیا۔ مگادی، نیروبی سے 113 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
پولیس ہیڈ کوارٹر نے اخبار کو بتایا کہ یہ کیس انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی کو سونپ دیا گیا ہے۔
پولیس اوور سائٹ اتھارٹی کی چیئرمین این مکوری نے واقعے کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کے بعد اس کی تحقیقات کے لیے ایک ریپڈ رسپانس ٹیم روانہ کر دی گئی ہے۔ ہم کینیا کی عوام کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا یقین دلاتے ہیں۔‘