بہترین تحقیقاتی صحافی ارشد شریف کے قتل کی خبر نے مجھ سمیت ان کے دوستوں اور محبت کرنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ خبر ایک خواب ہی لگ رہی تھی اور دل بار بار کہہ رہا تھا کہ کاش یہ ایک بھیانک خواب ہی ہو، سچ نہ ہو۔
24 اکتوبر کی رات میں تین بجے تک جاگ رہا تھا اور ٹوئٹر دیکھ کر ہی سویا تھا۔ تب تک ایسی کوئی خبر نظر نہیں آئی لیکن صبح بھائی کی کال آئی اور ان کی آواز اور لہجہ ایسا تھا کہ جیسے کوئی سانحہ ہو گیا ہو۔ ان سے پوچھا خیریت تو ہے؟ انہوں نے خبرِ غم دی کہ ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا ہے۔
میں کافی دیر کے لیے خاموش ہو گیا، نہ بولنے کو کچھ تھا اور نہ سمجھنے کو۔ ان کا چہرہ سامنے آ رہا تھا اور ساتھ میں لفظ ’قتل۔‘
میں تو خون میں لت پت ان کے چہرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور ایسا ہو گیا۔ چند لمحوں میں ان کے ساتھ گزرا ایک ایک منٹ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
ارشد شریف ایک با رعب، رحم دل، سخی اور دلیر صحافی تھے۔ وہ جو ایک بار ٹھان لیتے تھے اس کام کو مکمل کیے بغیر سکون سے نہیں بیٹھتے تھے۔
اپنے سینیئرز سے سنتے تھے کہ فلاں کی موت کی خبر سناتے ہوئے مشکل ہوئی، مگر کبھی سوچا نہیں تھا کہ کسی دن کچھ لکھتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ ساتھ میرے ہاتھ بھی کانپ رہے ہوں گے۔
میرا چھ سال سے ارشد صاحب کے ساتھ تعلق تھا اور ایک لمبا عرصہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے اتنے پروفیشنل انداز میں کبھی کسی کو کام کرتے نہیں دیکھا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا سب صحافت تھا۔ انہیں صحافت کے علاوہ نہ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ کچھ سنائی دیتا تھا۔
اگر کہیں کھانے جانا ہو تو تب بھی وہ خبر کی تلاش میں ہوتے تھے، اگر کہیں گھومنے جانا ہو تو کاغذات کی تلاش میں رہنا کہ کوئی خبر مل جائے۔
وہ وقت سے بہت آگے کا سوچتے تھے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ذہن میں رکھ کر چلتے تھے۔ نئے آنے والے صحافیوں کے لیے وہ بہترین مثال تھے۔ اس سے ایک بات یاد آئی کہ وہ جب شہر سے باہر کچھ شوٹ کرنے جاتے تو ایک ہی طرح کی فیروزی شرٹ پہنتے اور ایک ہی کالی پینٹ اور سردی ہو تو کالی جیکٹ۔
ایسا لگتا کہ یہ ارشد شریف کا یونیفارم ہو۔ پہلے مجھے بھی کچھ خاص سمجھ نہیں آئی کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
لیکن ارشد شریف جب 2020 میں شمالی وزیرستان گئے تو انہوں نے پھر ویسی ہی کالی پینٹ اور فیروزی رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی جیسا کہ 2012 اور 2014 میں وزیرستان میں ریکارڈنگ کے دوران پہن رکھی تھی اور تینوں دوروں کا جب ایک فریم بنایا گیا توایسا معلوم ہوا کہ یہ ایک ہی سفر کی روداد ہے۔
دستاویزات کے بغیر وہ بات نہیں کرتے تھے اور یہ سب سے اہم چیز ہے جو میں نے ارشد شریف سے سیکھی۔ ہم مذاق کیا کرتے تھے کہ ارشد صاحب کو موسم کا حال بتائیں تو اس پر بھی ڈاکیومنٹ مانگ لیں گے اور ایک دن واقعی ایسا ہوا۔
بارشوں کی پیش گوئی تھی، لہذا میں نے شو میں چلنے والے ہیڈرز میں یہ لائن ڈال دی، لیکن انہوں نے اس پر انحصار کرنے سے انکار کر دیا اور محکمہ موسمیات کی پریس ریلیز نکالنے کو کہا اور پھر انہوں نے اس پر بات کی۔
میرے استاد کی موت میرے لیے تو غم کی خبر ہے ہی لیکن میری والدہ بھی غم سے نڈھال ہیں۔ آج جب ان سے فون پر بات ہوئی تو وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں: ’آج میری طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ میں روز یوٹیوب پر ارشد کو دیکھتی تھی۔ میڈیا میں یہ بندہ ہی تو اچھا لگتا تھا۔‘
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اے آر وائے نیوز چینل کی ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھی میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ’ارشد سے مشورہ کرو۔ جیسا وہ کہیں، وہ کرو۔‘
میں نے بہت کم ’بڑے‘ لوگوں کو اپنا سامان خود اٹھاتے دیکھا ہے، لیکن ارشد شریف اپنی ذات میں ایک بڑے انسان تھے کہ جب بھی دفتر سے نکلتے یا باہر شوٹ کے لیے جاتے تو کبھی اپنا سامان یا بیگ کسی دوسرے کو اٹھانے نہیں دیا۔
وہ کافی عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے مگر جب کہیں شوٹ کرنے جاتے تو ان میں 20 سال کے نوجوان والی ہمت نظر آتی۔ پوری ٹیم تھک جاتی تھی لیکن نہیں تھکتے تھے تو ارشد شریف۔
صحافت کے ساتھ ان کا جنون کی حد تک لگاؤ تھا، شاید اس لیے صحافت کرتے کرتے سب کو دکھی چھوڑ کر چلے گئے۔
اپنے کام پر انہیں یقین تھا اس لیے وہ احساس کمتری کا شکار نہیں تھے اور ہمیشہ دوسروں کو پروموٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس میڈیا انڈسٹری میں بہت سے اہم عہدوں پر ایسے بے شمار لوگ ہیں، جو ارشد شریف کے شاگرد رہے۔ نہ جانے کتنے دور دراز علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والوں کو ارشد شریف مین سٹریم پر لائے اور آج وہ اینکر ہیں۔
مجھے سکرین دینے والے ارشد شریف ہیں، وہ اپنے شو کے 40 منٹ میں سے 10 منٹ مجھے دے دیتے تھے، جس کے لیے بہت بڑا دل چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مہنگائی کے دور میں جب اپنے بچوں کو پڑھانا ایک مشکل کام ہے وہاں ارشد شریف کہتے تھے: ’تم مزید تعلیم حاصل کرو۔ کسی یونیورسٹی سے ایم ایس کرو۔ میں تمہاری فیس دوں گا۔ میرا دل کرتا ہے تم نوکری کے ساتھ ایم ایس کرو۔‘
کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا، چاہے وہ گارڈ ہو یا دفتر کا کوئی ساتھی، وہ سب سے پہلے ارشد شریف کے پاس جاتا۔
مرنا تو سب کو ہے کسی نے باقی نہیں رہنا، لیکن ان کی موت کی خبر سن کر دل بے چین ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ایسی موت شاید کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے کہ پورا ملک ان سے محبت اور دکھ کا اظہار کر رہا ہے۔
ارشد شریف سے میری کچھ ایسی رفاقت رہی ہے کہ لوگ مجھے بھی کالز کر کے تعزیت کر رہے ہیں، گویا میں ان کی فیملی کا حصہ ہوں اور جس کی بھی کال آتی ہے وہ رو رہا ہوتا ہے۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے ارشد شریف کا ہنستا مسکراتا چہرہ بار بار میری نظروں کے سامنے آ رہا ہے۔ سوچتا کچھ ہوں اور لکھتے ہوئے کہیں اور ہی نکل جاتا ہوں۔ شاید میرے کیریئر کی یہ سب سے بے ربط لکھائی ہوگی۔
ایسا کوئی کمال کا بندہ، ایسا کوئی دوستوں کا دوست تھا۔ ان کا دفتر نہیں بلکہ بیٹھک ہوتی تھی۔ شام کے وقت دفتر میں بڑے بڑے نامور صحافی ان سے ملنے آ جاتے اور بس پھر کھانوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
اللہ نے انہیں ایسی سخاوت عطا کی کہ بندہ دیکھتا رہے۔ ہمیشہ انہیں کھلانے والوں میں سے ہی دیکھا۔ کسی سے کچھ لیتے نہیں تھے مگر ہمیشہ اپنی جیب سے خرچ کرتے اور اگر کوئی خرچ کر دیتا تو ناراض ہو جاتے تھے۔
شاید لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہ جتنے رحم دل تھے، اتنے ہی غصے کے بھی تیز تھے۔ اگر کبھی غصہ آجائے تو توبہ، پورا دفتر خاموش ہو جاتا تھا اور پھر تھوڑی دیر میں جب غصہ اڑن چھو ہوا تو ارشد صاحب منانا شروع کر دیتے۔
جیسے ایک باپ، بیٹے کو غصہ کرنے کے بعد مناتا ہے اسی طرح وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو مناتے اور پھر کھانا بھی کھلاتے تھے۔
میں تو اپنی ان کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کو ہی بھول نہیں پا رہا، جب جاب انٹرویو کے لیے کچھ چھ سال قبل ان کے دفتر میں داخل ہوا اور وہ سامنے کھڑے ٹائی پہن رہے تھے۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ یہ میری زندگی کا سب سے منفرد انٹریو تھا۔ سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ انٹرویو تھا یا گپ شپ۔
وہ ہر کسی کے غم کو سمجھتے اور صحیح معنوں میں اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کے غم کو بھلانا آسان نہیں۔ نہ جانے ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ کون کون یتیم ہو گیا۔
ان کے ساتھ کام کرنے والی خاتون صحافی نے، جن کے لیے وہ ہمیشہ ایک باپ کی طرح کھڑے رہے، ٹویٹ کی: ’آج میں دوسری بار یتیم ہو گئی۔‘
سٹی رپورٹنگ سے آغاز کرنے والے ارشد شریف لاکھوں لوگوں کے لیے اپنی دلیرانہ صحافت سے ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی زبان کوئی بند نہیں کرسکا تھا اور نہ ہی بند کرسکتا تھا۔ انہوں نے زبان تو آج تک بند نہ کی، مگر آنکھیں بند کر لیں۔