وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نئے پاکستان میں ہر ایک جوابدہ ہے اور امیر اور غریب کے لیے دو الگ قوانین نہیں ہوسکتے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق، اتوار کو امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں کیپیٹل ون ارینا میں پاکستانی برادری کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ایک کے لیے میرٹ اور مساوات نئے پاکستان کا ویژن ہے جبکہ ہرشہری کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کو ریاست مدینہ منورہ کی طرز پر فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا تحریک انصاف کی حکومت کا نصب العین ہے۔ ان کے مطابق ہمدردی، انصاف، قانون کی بالادستی، خواتین ،بچوں اور بزرگوں کی نگہداشت ریاست مدینہ کے اصول تھے۔
وزیراعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ لوٹ مار کرنے والوں کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے بلیک میلنگ یاکسی دبائو میں آئے بغیر احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کاعزم ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے مختلف ملکوں کے ساتھ معاہدے طے پا گئے ہیں جن کے تحت بیرون ملک سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لائی جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ملک میں یکساں نصاب لانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ ہرشخص کو مساوی مواقع مل سکیں، انہوں نے کہا کہ مدارس کے طلبا کو بھی قومی دھارے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا کامیابی سے خاتمہ کیا ہے۔
’این آر او نہیں ملے گا‘
تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی تقریر میں عمران خان نے تاریخ کے حوالے دے کر حاضرین کو جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان فرق بتانے کی کوشش بھی کی۔
انہوں نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس میں میرٹ ہے جبکہ بادشاہت میں خاندان، خون، رشتہ داریوں کی اہمیت ہے۔
’جتنا کم میرٹ ہو گا اتنا ملک پیچھے چلا جائے گا۔ جمہوریت اس لیے آگے نکل گئی کہ میرٹ پر اعلی قیادت اوپر آتی ہے۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں میرٹ نہیں لہذا ہم دنیا پر غلبہ نہیں حاصل کر پا رہے۔
’پاکستان میں قائد اعظم کے بعد اس لیے کوئی بڑا لیڈر نہیں ملا کیونکہ ملک میں ایک قسم کی بادشاہت موجود رہی۔‘
انہوں نے کہا: ’نواز شریف کو ایک آمر نے میرٹ کے برعکس سیاست میں متعارف کرایا، اسی طرح شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی محض ایک کاغذ پر لکھی تحریر پر لیڈر بن بیٹھے۔‘
اسی تناظر میں انہوں نے ولی خان اور مولانا فضل الرحمان کی خاندانی سیاست کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے کہا کہ چین میں میرٹ کا بہترین نظام موجود ہے، وہاں سارے ملک میں میرٹ پر لوگ اوپر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی طاقت ور سے سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب دینے کے بعد اسے انتقامی کارروائی قرار دینے لگتا ہے۔
عمران نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کا نام لیے بغیر کہا کہ ان سے کبھی جواب طلب نہیں کیے گئے اور نئے پاکستان میں یہ لوگ جواب دہ ہیں۔
’لوگ پوچھتے ہیں کہاں ہے نیا پاکستان تو میں کہتا ہوں آپ کی آنکھوں کے سامنے نیا پاکستان بن رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بڑے اپوزیشن رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان ’انتقامی کارروائی‘ کر رہا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ان پر چلنے والے سارے کیس ان کے اپنے بنائے ہوئے اور پرانے ہیں۔
’ہم نے صرف اداروں (نیب، ایف آئی اے وغیرہ) کو آزاد کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علما اسلام ف صرف ایک مقصد کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔ ’وہ مجھ سے صرف تین لفظ سننا چاہتے ہیں ’این آر او‘۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں بیرون ملک سے این آر او کے لیے سفارشیں کروائی گئیں لیکن دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے ایسا نہیں ہو گا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان کے اندر ناقص نظام تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ ملک میں پہلی بار ایک جیسا تعلیمی نظام متعارف کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ سب کو برابری کے مواقع ملیں اور ہم ایک قوم بنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آٹھ لاکھ بچے انگریزی، سوا تین کروڑ اردو میڈیم جبکہ 25 لاکھ دینی مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔
’ہم پہلی مرتبہ مدرسوں کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ بیٹھے تاکہ یہاں بھی مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم فراہم کی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نظام ٹھیک کر کے نچلے طبقے کو اوپر آنے کا موقع دے گی۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ہر سال تبدیل ہو گا اور بتدریج اوپر جاتا رہے گا۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مایوسیاں بہت ہوگئیں اور اب وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی ٹھیک کریں گے، نظام کو بدلیں گے تاکہ نیا ٹیلنٹ سامنے آئے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نئے پاکستان کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چین پاکستان راہداری سے فائدہ اٹھانے کے لیے دنیا کا خیرمقدم کرتا ہے اور یہ سرکاری اور کاروبارکے لیے کھلی ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن واستحکام کاخواہاں ہے۔