سکھر کی خاتون وکیل فرزانہ کھوسو 70 یتیم بچیوں کا شیلٹر ’فیری ہوم‘ چلا رہی ہیں۔
انہوں نے اس شیلٹر کا آغاز 2015 میں پانچ بچیوں کی کفالت سے کیا۔
فرزانہ نے بتایا کہ عدالتوں میں چلنے والے فیملی کیسز میں بچیوں کی حوالگی کا معاملہ بہت مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی تنازعات، شوہر کی وفات اور خاتون کی دوسری شادی یا اکثر غربت کے باعث بچیوں کی پرورش کے بہت سے کیس سامنے آتے ہیں مگر ان کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اس مسئلے پر اکثر اپنے ساتھی وکلا سے گفتگو کرتی تھیں تو ان کا یہی جواب آتا کہ بچیوں کا معاملہ بہت حساس ہوتا ہے۔
’اکثر کسی رشتہ دار یا ملنے والے کے یہاں نوکرانی بن کر معصوم بچیاں اپنی شخصیت کا گلا دبا کر پرورش پاتی ہیں جن میں بیشتر لڑکیوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ’سندھ میں جہاں اکثریت دیہی علاقوں کی ہے وہاں قبائلی تنازعات کے باعث یہ بہت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔
’اس قسم کے کام کے باعث بہت سے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
فرزانہ شیلٹر میں رہنے والے بچیوں کو یتیم نہیں بلکہ پریاں کہتی ہیں اور انہوں نے اسی وجہ سے شیلٹر کا نام بھی یہی رکھا۔
’میرے پاس سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی 70 بچیاں رہ رہی ہیں جنہیں کردار سازی سمیت تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا جا رہا ہے۔
’سب سے چھوٹی پری تقریباً ایک سال کی ہے، جو ہمارے پاس صرف ایک دو روز کی آئی تھی۔‘
فرزانہ کے مطابق ان بچیوں نے سکھر ڈویژن میں بہت سے کھیلوں کے مقابلوں میں پوزیشن لی جبکہ ایک بچی نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ دیگر بچیوں نے بھی مختلف کلاسز میں پہلی پانچ پوزیشنز لیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس ادارے کو چلانے میں ان کے شوہر عبدالواحد کھوسو کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جن کے مالی تعاون سے ہر ماہ بھاری اخراجات اٹھانا ممکن ہوتے ہیں۔
ان کے بعد سب سے زیادہ قربانی اور ساتھ فرزانہ کے بچوں نے دیا۔ ’میں اب اس ادارے کے کاموں میں اتنی مگن ہو گئی ہوں کہ اپنے گھر کئی کئی دن بعد جانا ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرزانہ کے مطابق سول سوسائٹی کے افراد کی حوصلہ افزائی اور کچھ مخیر حضرات کے تعاون سے ان کے ماہانہ آٹھ سے نو لاکھ روپے کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔‘
عبدالواحد کھوسو نے بتایا کہ شروع میں انہیں یہ کام بہت مشکل لگتا تھا۔
’میں نے فرزانہ کو بہت سمجھایا مگر ان کا جنون اور پھر ان بچیوں کے جب حالات دیکھے تو مجھے اپنی بیوی پر فخر ہوا کہ یہ ایک بہت عظیم کام کر رہی ہیں۔‘
عبدالواحد اب کوشش کرتے ہیں کہ ہر ہفتے ان بچیوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کام میں شریک ہو کر انہیں بہت قلبی سکون ملا۔
’اس کام کے بعد میرے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری ان بیٹیوں کے نصیب کا رزق ہے جو مجھے مل رہا ہے۔‘