شمالی مشرقی افغانستان میں برقع نہ پہننے پر طالبات کو یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے جس کے بعد تعلیم کے حق کے لیے احتجاج کرنے والی طالبات کو طالبان نے کوڑے مارے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کو بدخشاں یونیورسٹی کے گیٹ پر طالبان کی امر بالمعروف و نہی عن المنکر فورس کے اہلکاروں کو طالبات پر حملہ آور ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں ہاتھ میں کوڑا لیے گارڈز میں ایک کو طالبات کے پیچھے جاتے دیکھا جا سکتا ہے کہ تا کہ یونیورسٹی کے گیٹ پر جمع ہونے والی طالبات کو منتشر کیا جا سکے جو اس لیے اکٹھی ہوئیں کہ انتظامیہ انہیں یونیورسٹی میں داخل ہونے کی اجازت دے۔
طالبات کا دعویٰ ہے کہ انہیں برقع نہ پہننے پر یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
طالبان نے برقعے کو خواتین کے لازمی قرار دے رکھا ہے۔ احتجاج کرنے والی درجنوں طالبات نے سیاہ رنگ کا طویل لباس پہن رکھا تھا اور وہ حجاب میں تھیں۔ طالبات نے ’تعلیم تک رسائی‘ کے حق میں نعرے لگائے۔
افغانستان کے خبر رساں ادارے خامہ پریس کے مطابق یونیورسٹی کے صدر نقیب اللہ قاضی زادہ نے نے طالبان کی امربالمعروف و نہی عن المنکر فورس کے افسر کے طالبات کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے طالبات کو یقین دلایا کہ ان کی درخواست کو عملی شکل دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزات امن عامہ نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ طالبات کے سامنے یونیورسٹی کے دروازے بند کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی کی رہنما کمیٹی نے کیا۔
گذشتہ سال 15 اگست کو اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان خواتین کی عوامی مقامات اور تعلیم تک رسائی بند کر کے ان کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اسلام پسند جنگجوؤں نے مئی میں تمام افغان خواتین کو حکم دیا تھا کہ وہ گھر سے باہر جسم کو مکمل طور پر ڈھاپنے والا برقع پہنیں جس میں ان کا چہرے دکھائی نہ دیں۔ یہ حکم خواتین کے حقوق پر کیے جانے والے سخت ترین حملوں میں سے ایک ہے۔
طالبان در بدخشان، دختران دانشجو را به بهانه رعایت نکردن حجاب طالبانی لتوکوب کردند. pic.twitter.com/886v0zaSHi
— Mukhtar wafayee مختار وفایی (@Mukhtarwafayee) October 30, 2022
طالبان نے چھٹی جماعت سے اوپر طالبات کے سکول میں داخلے پر ایک سال پابندی لگائے رکھی جس کے خلاف خواتین نے ملک گیر مظاہرے کیے۔
طالبات پر ثانوی اور ہائی سکولوں کے دروازے بند کرنے کے خلاف گذشتہ ہفتے دارالحکومت کابل کے مختلف علاقوں میں متعدد سکولوں کے سامنے مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر ’بلا خوف تعلیم‘ کا نعرہ درج تھا۔
عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے رواں ماہ کابل میں تعلیمی مرکز پر چند دن پہلے کیے گئے خود کش حملے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کو مارا پیٹا گیا حتیٰ کہ طالبان نے ان پر گولی بھی چلائی۔
طالبان کی سکیورٹی فورسز نے دشتِ برچی کے علاقے میں واقع کاج ایجوکیشن سینٹر کے باہر مظاہرہ کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی۔ مغربی کابل کے دشتِ برچی کے علاقے میں زیادہ تر ہزارہ آباد ہیں۔ اس علاقے میں 18 سے 24 سال عمر کی خواتین مظاہرہ کر رہی تھیں۔
© The Independent