یہ تحریر آپ لکھاری کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
ارشداللہ، یہی اس کا اصلی نام ہے، مجھے آئی آر سی کے دفتر جاتے وقت راستے میں آتا دکھائی دیا۔
پشت پہ سامان لدا ہوا تھا اور وہ جھک کر چل رہا تھا۔ قریب آیا تو مسکرا کر بولا: ’خالہ ہمیں گھر مل گیا ہے، وہ بھی ورجینیا میں۔‘
میں نے کہا: ’واہ خوش قسمت ہو۔‘
اس نے کندھے سے جالی دار تھیلا اتارا جو فٹ بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں بے اختیار مسکرا اٹھی۔ میں جانتی تھی کہ ہر ایک فٹ بال اس نے محنت سے کمایا ہے۔ جب کیمپ میں چمن اور اس کے اردگرد کی جگہ پہ کوڑا کرکٹ جمع ہو جاتا تو ہفتے میں ایک بار باقاعدہ لاؤڈ سپیکر پہ اعلان کروایا جاتا کہ بچے اور بڑے رضاکار سامنے آئیں اور اپنا علاقہ صاف کریں۔
بچے بڑے سبھی جوش وخروش سے پانی کی خالی بوتلیں، سوڈا کے ٹن، بسکٹ کے ریپرز وغیرہ جمع کرتے۔ زیادہ کوڑا جمع کرنے والے بچوں کو بطور تحفہ فٹ بال ملتی۔
مجھے ارشد اللہ کی درجن بھر فٹ بالوں پہ حیرت تھی کہ آخر ان کا کیا کرے گا۔ اس کے پاس کپڑوں کا صرف ایک چھوٹا سا فوجی بیگ تھا۔
پہلی بار ارشد مجھے لانڈری کی قطار میں کپڑوں کے لفافے کو سینے سے لگائے خاموش بیٹھا نظر آیا تھا۔ میں نے نظر انداز کر دیا تھا۔ ہر روز ایسے بےشمار بچے لانڈری کی قطار میں اپنی تھیلوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے۔ جب ان کی باری نزدیک آنے لگتی تو وہ اپنے والدین میں کسی کو بلا کر لے آتے۔
ارشد کے بعد میری باری تھی وہ لانڈری روم کے اندر گیا پھر فوراً منہ بسورتا باہر نکلا تو اس کے پیچھے پیچھے میکسیکن دھوبی بھی تھا جو کہنے لگا: ’اسے کہو اپنی ماں کو لے کر آئے۔‘
میں نے کہا یہ کہہ رہے ہیں: ’اپنی والدہ کو لے کر آؤ۔‘
اس نے کہا: ’کہاں سے لے کر آؤں جب ہے ہی نہیں تو؟‘
مجھے بہت افسوس ہوا کہ بیچارے کی ماں نہیں ہے۔ میرا لہجہ نرم ہو گیا: ’چلو پھر اپنے والد کو لے آؤ۔ یہ بچوں کو بنا والدین اندر آنے کی اجازت نہیں دیتے۔‘
وہ افسردہ ہو کر بولا: ’وہ بھی نہیں ہے۔‘
بےاختیار میرے منہ سے نکلا: ’پھر کس کے ساتھ آئے ہو؟‘
اس نے کہا: ’بھائی کے ساتھ۔‘
ارشد کی اپنی الگ کہانی تھی۔ کہنے کو تو وہ نو سال کا تھا مگر اس وقت وہ اپنی زندگی میں وہ سہہ رہا تھا جو بڑے بڑے بھی نہیں سہہ سکتے۔ وہ پکتیکا کا رہنے والا تھا۔ جب طالبان کا اثر و رسوخ اس گاؤں میں بڑھنے لگا تو اس کے بھائی کو ان کے والدین نے پڑھنے کے بہانے کابل بھیج دیا۔ درحقیقت انہیں ڈر تھا کہ کہیں طالبان اس کے بیٹے کو نقصان نہ پہنچائیں یا پھر اسے بھی اپنے ساتھ زبردستی شامل نہ کر لیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارشد جب آٹھ سال کا ہوا تو یہی خوف پھر اس کے والدین کو لاحق ہو گیا۔ ارشد بھی اپنے 15 سالہ بھائی کے پاس بھیج دیا گیا۔ کابل میں وہ ایک استاد کے کرائے دار تھے جنہوں نے انہیں گھر کی دوسری منزل پہ ایک کمرہ دے رکھا تھا۔
جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تو استاد بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح مایوس ہو کر، اپنا سارا سامان باندھ، بیوی اور تین چھوٹے بچوں کو لے کر ہوائی اڈے جانے کو تیار ہو گئے۔ جس دن استاد کا خاندان ہوائی اڈے کو روانہ ہوا، انہوں نے بھی کرائے کا کمرہ چھوڑ کر واپس پکتیکا جانے کے لیے سامان باندھ لیا۔
پھر نجانے اس کے بھائی کے دل میں کیا خیال آیا کہ وہ استاد کے ساتھ ہی ارشد کو لے کر ہوائی اڈے چلا گیا۔ اس دن قسمت اچھی تھی کہ وہ دھکم پیل میں ہوائی اڈے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ استاد کا خاندان ہجوم میں ان سے بچھڑ گیا۔ یہ بنا ویزا، پاسپورٹ اور کسی بھی قسم کے شناختی کاغذات کے فوجی طیارے میں بیٹھ کر قطر پہنچے، پھر جرمنی اور جرمنی سے امریکہ آ گئے۔
جرمنی پہنچ کے ان کا رابطہ اپنے والدین اور استاد سے ہوا۔ استاد ریاست انڈیانا کے ایک فوجی کیمپ میں پہنچ چکے تھے جبکہ ماں۔۔۔
میں نے ارشد سے کہا: ’وہ بہت خفا ہو گی؟‘
ارشد نے کہا: ’وہ بہت خوش تھی کہ ہم ملک سے نکل گئے۔‘
نو سال کا بچہ جسے ہم اکیلے سکول تک نہیں بھیجتے، امریکہ پہنچ گیا۔ میں اس کی کہانی سن کر افسردہ ہو رہی تھی کہ میرے ساتھ کھڑی خاتون نے کہا: ’یہ تو پھر بھی سگے بھائی کے ساتھ آیا ہے، میں نے ہوائی اڈے دیکھا کہ امریکی فوجی دو بڑی بڑی بسوں پہ ایسے بچے لائے جن کی عمریں دو سے دس سال کے درمیان تھیں۔
’والدین تو کیا ان کے ساتھ کوئی والی وارث تک نہیں تھا۔ وہ ہمارے سامنے طیارے میں بیٹھ کر چلے گئے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں میں نے پھر کبھی کہیں بھی کسی بھی کیمپ میں نہیں دیکھا۔‘
خاتون نے کہا: ’یقین کرو وہ پورے سو بچے تھے۔ میں نے خود انگلیوں پہ گنے تھے۔‘
پھر بھی مجھے شک ہوا شاید مبالغہ ہو، بنا والدین کے سو بچے آخر امریکی فوجی کیوں اور کہاں سے لائے ہوں گے؟
خاتون ملک کے ابتر حالات پہ ماتم کرتے ہوئے کہنے لگی: ’آج تک ان سو معصوم بچوں کے چہرے مجھے مضطرب کرتے ہیں۔ وہ بڑے ہوں گے تو کیا وہ مسلمان رہیں گے، کیا وہ افغان رہیں گے، یا اپنی قوم، ملک، ملت اور شناخت بھول چکے ہوں گے؟‘
میں نے کہا: ’پتہ نہیں مگر کم از کم زندہ تو رہیں گے۔‘
بعد میں مجھے علم ہوا وہ خاتون ٹھیک کہہ رہی تھی مگر ان کے اعداد و شمار غلط تھے۔ آفس آف رفیوجی ریسٹلمنٹ ادارے کے مطابق ان بچوں کی تعداد ایک سو نہیں بلکہ ساڑھے 14 سو ہے۔ خود امریکی ان بچوں کی بےبسی پہ ماتم کر رہے تھے۔ وہ بچے اپنے ملک، والدین اور رشتے داروں کو یاد کر کے سارا دن روتے ہیں اور رات بھر ان کی سسکیاں اور ہچکیاں کمرے میں سنائی دیتی ہیں۔
ان میں کچھ یتیم و مسکین ہیں اور کچھ کے والدین ابھی بھی افغانستان میں ہیں۔ ان کا اپنے والدین سے ملاپ شاید برسوں بعد ہی ہو سکے۔ مستقبل میں ان بچوں کو شاید فوسٹر والدین مل جائیں یا یتیم خانوں میں پل کر بڑے ہوں مگر وہ اس ظالم سماج کے لیے بہت سے سوال چھوڑ گئے جن کے جواب جنگ کے زمینی خدا، ہمارے مذہبی پیشوا اور ہجرت کے ناخدا ہی دے سکتے ہیں۔
وہ فقط ہزار بچے نہیں ہزار درخت تھے جو اپنی زمین سے اکھڑ گئے، ہزار پہاڑی پرندے جو ہمیشہ کے لیے ڈار سے بچھڑ گئے شاید وہ پھر کبھی ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے دامن میں نہ آ سکیں۔ ہزار قبائلی خاندان تھے جو گم ہوگئے۔ بعد از جنگ، بعد از ہجرت، بعد از سفر۔