نوے کی دہائی کے آغاز میں پہلی بین الاقوامی موسمیاتی اجلاس سے قبل وناتو اور بارباڈوس جیسے جزیرہ ممالک اکٹھے ہوئے۔
ان چھوٹے ممالک کا کہنا تھا کہ اگرچہ مشترکہ طور پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ان کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن سمندر کی سطح بڑھنے سے ان کے ممالک کے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔
ان ممالک نے تجویز کیا کہ ایک بین الاقوامی انشورنس فنڈ قائم کیا جائے جس میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں جس ترقی یافتہ ملک کا جتنا حصہ ہے وہ اس حساب سے فنڈ مہیا کرے۔
جو ملک گیس کے اخراج میں جتنا زیادہ قصور وار ہے وہ اتنا ہی زیادہ فنڈ دے۔
حیرت کی بات نہیں کہ امیر ملکوں نے اس تجویز کو رد کر دیا۔ وہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ کیسے گیس کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے یا کیسے موسمیاتی تبدیلی کو اپنانے کی کاوشوں کو فنڈ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن وہ اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان کے ماضی میں کیے گئے نقصان کے بدلے میں مالیاتی ذمہ داری ان پر ڈالی جائے اور یہ کہ ان کے گیس کے اخراج کے باعث دیگر ممالک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
مختصراً ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ذمہ داری تو قبول کی لیکن وہ اس کا ازالہ مالی طور پر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
تاہم یہ چھوٹے ممالک ہمت نہیں ہارے اور انھوں نے مزید ممالک کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے رسک یعنی سمندر کی سطح بلند ہونے سے موسم میں شدید تبدیلی تک کا سامنا کیا جا سکے۔
20 سال کی کاوشیں رنگ لائیں اور 2013 میں انٹرنیشنل کلائمٹ ٹریٹیز میں یہ تجویز شامل کی گئی۔
2003 میں برطانیہ میں آنے والی ہیٹ ویو میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ تحقیق دانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ سانحہ ہوا ہے؟
اور اگر ہوا ہے تو کیا لوگ گیس کے اخراج کے ذمہ دار ممالک پر کیس کر سکتے ہیں؟
تحقیق کے بعد یہ تحقیق دان پہلے سوال کا جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ہاں انسان کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے باعث یہ سانحہ ہوا۔ اور پہلی بار تحقیق دان موسمی واقعے کو انسان کے باعث ہونے کا کہہ سکے۔
سائنس اب یہ بتا سکتی ہے کہ کیسے موسمیاتی تبدیلی اثر انداز ہو رہی ہے۔
سائنس دان اب یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر درجہ حرارت بہت زیادہ ہے تو کتنا زیادہ درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑھا ہے یا اگر غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں تو کتنی زیادہ بارش مومسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوئی۔
اسی لیے جب پاکستان میں سیلاب آئے تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس بحران سے نکلنے کے لیے بہت زیادہ مالی امداد کا کہا اور ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یہ مالی امداد ’فراخ دلی نہیں بلکہ انصاف ہے۔‘
یعنی اگر سائنس یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں بارشیں عمومی طور پر 75 فیصد زیادہ ہوئی ہیں تو اس 75 فیصد بارش سے آنے والے زیادہ پانی سے جو نقصان ہوا اس کا ازالہ وہ کریں جو اس کے ذمہ دار ہیں یعنی ترقی یافتہ ممالک۔
جیسے امریکہ کے حوالے سے تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ 1850 میں شروع ہونے والے صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک امریکہ انسان کے باعث گرین ہاؤس گیس کا اخراج کے 25 فیصد کا ذمہ دار ہے۔
لیکن یہ اتنا آسان نہیں جتنا کاغذ پر لگتا ہے۔ برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں موسمیاتی ماہر ریچل جیمز کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اور بڑی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کا موسمیاتی تبدیلی میں اتنا ہاتھ نہیں جتنا بتایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حال ہی میں اس حوالے سے بھی سائنس دانوں کو بڑی کامیابی ملی ہے۔
مشہور امریکی یونیورسٹی ڈارٹمتھ میس سائنس دانوں نے ماضی میں کسی بھی ملک کی جانب سے گیس کے اخراج کو کسی دوسرے ملک میں ہونے والے معاشی نقصان جاننے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
ان کے مطابق نوے کی دہائی سے لے کر اب تک امریکہ کی جانب سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی وجہ سے امریکہ دیگر ممالک کو ہونے والے نقصان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 1.8 کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔
ڈارٹمتھ کے موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے کیلاہن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے بعد گیس کا اخراج کرنے والے ممالک تردید کر کے جان نہیں چھڑا سکتے اور اب اس اخراج سے دیگر ممالک کو کتنا نقصان ہوا ہے اس بارے میں تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سیاسی ایجنڈے میں سر فہرست ہونا لازمی ہے۔ وناتو اور بارباڈوس جیسے ممالک کی طرح پاکستان بھی گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں آدھے فیصد کا ذمہ دار ہے لیکن پاکستان بھی موسمیاتی ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔
اس وقت جو سوال ہم سب کے سامنے ہے وہ ہے کہ ’کیسے نمٹا جائے‘۔