موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لائحہ عمل پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے مصر کے تفریحی صحرائی مقام شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی 27ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کا آغاز اتوار سے ہو چکا ہے۔
اس کانفرنس میں پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ کمزور ممالک کے لیے معاوضے کی تجویز پر غور کے لیے اسے ایجنڈے میں شامل کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے اتوار کو مصر پہنچ گئے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اور کابینہ کے ارکان سمیت اعلی حکام بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔
وزیراعظم منگل کو ناروے کے اپنے ہم منصب کے ہمراہ اعلیٰ سطح کی گول میز کانفرنس کی صدارت بھی کریں گے جس میں موسمیاتی تبدیلی اور کمزور طبقات کو سہارا دینے پرتبادلہ خیال کیا جائے گا۔
وزیراعظم اعلی سطح کی دیگر تقریبات سے بھی خطاب کریں گے جن میں ایگزیکٹو ایکشن پلان کے لیے فوری انتباہ کے نظاموں کے اجرا کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی گول میز کانفرنس اور سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی میزبانی میں منعقد ہونے والی مشرق وسطیٰ میں فضائی آلودگی سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کی کانفرنس شامل ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق دنیا بھر سے ماہرین، مندوبین اور سربراہان اتوار کو مصر کے ساحلی تفریحی مقام شرم الشیخ میں جمع ہوئے جہاں یوکرین جنگ، عالمی مہنگائی، خوراک سمیت متعدد مسابقتی بحرانوں اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل پر بات چیت کی گئی۔
مذاکرات کاروں نے دو دن کی ابتدائی بات چیت کے بعد باضابطہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ کمزور ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصان اور تباہی کے لیے معاوضہ ادا کیا جائے۔ یہ مسئلہ برسوں سے بات چیت کا حصہ نہیں بن پایا تھا جہاں امریکہ سمیت امیر ممالک موسمیاتی تباہی کی تلافی کے خیال کو مسترد کرتے آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی شعبے کے سربراہ سائمن سٹیل نے کہا: ’حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے ایک ایجنڈا آئٹم کے طور پر اپنایا گیا ہے جو اس امید افزا پیش رفت کو ظاہر کرتا ہے کہ فریقین اس حوالے سے ایک پختہ اور تعمیری رویہ اختیار کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ ایک مشکل موضوع ہے۔ یہ 30 سالوں سے زیادہ عرصے سے تعطل کا شکار رہا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اچھی بات ہے۔‘
سول سوسائٹی کے گروپوں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کی صدر انی داس گپتا نے کہا کہ ’بالآخر موسمیاتی اثرات سے ہونے والے نقصانات اور تباہی سے نمٹنے کے لیے فنڈز فراہم کرنا اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہو گیا ہے۔‘
جرمن ایلچی جینیفر مورگن، جنہوں نے چلی کے ساتھ مل کر اس معاملے پر مذاکرات کی قیادت کی، نے کہا کہ یہ معاہدہ مذاکرات کاروں کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے معاملے پر ’سنجیدہ پیش رفت‘ کرنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔
برطانوی ایلچی آلوک شرما نے کہا کہ دنیا کی اقوام نے گلاسگو میں اپنے آخری اجلاس کے دوران صدی کے آخر تک گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس (2.7 فارن ہائیٹ) تک محدود کرنے کے ہدف کو زندہ رکھنے میں کافی پیش رفت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم شرما نے متنبہ کیا کہ یوکرین جنگ، عالمی افراط زر، خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور دیگر عالمی بحرانوں کا مطلب یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
شرما نے کہا کہ ’ہمیں ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت تلاش کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے پاکستان اور نائیجیریا میں حالیہ تباہ کن سیلابوں اور یورپ، امریکہ اور چین میں تاریخی خشک سالی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کو یا درحقیقت عالمی رہنماؤں کو جاگنے کے لیے کتنے اور ویک اپ کالز کی ضرورت ہے؟‘
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے لیے متحد عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق نئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حوالے سے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کی بلکہ اس کے نتائج کو قبول کرنے کی بھی۔ مثال کے طور پر پاکستان کے شہر فیصل آباد میں معمولی تخفیف کے اقدامات کے ساتھ بھی 2020 سے 2039 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی اضافی اموات ہر سال اوسطاً ایک لاکھ میں سے 36 ہو جائیں گی۔
فیصل آباد میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی اموات کی شرح وسط صدی تک تقریباً دوگنی ہو جائے گئی یعنی ایک لاکھ میں 67 اموات۔ یہ ایک اضافہ تقریباً اتنا ہی مہلک ہے جتنا کہ فالج جو اس وقت پاکستان میں اموات کی تیسری بڑی وجہ ہے۔