حال ہی میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے رحمت گشکوری کے ساتھی انہیں بتاتے رہے ہیں کہ ان کی شکل انڈین سپر سٹار رجنی کانت سے ملتی ہے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 62 سالہ رحمت نے جب انٹرنیٹ پر رجنی کانت کا نام گوگل کیا تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے ساتھی تمل ادکار شیواجی راؤ گائیکواڈ کا حوالہ دیتے تھے جنہیں رجنی کانت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
رجنی کانت انڈیا میں اتنے محترم ہیں کہ دہائیوں سے ان کی تصویروں کو باقاعدگی کے ساتھ ہزاروں گیلن دودھ سے نہلایا جا رہا ہے۔
یہ عمل عقیدت کے اظہار کی علامت ہے جو ہندو دیوتاؤں کے لیے مخصوص ہے۔
اکثر رجنی کانت کی فلمیں ریلیز ہونے پر مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں اور ان کی فلموں کی ریلیز کی تاریخ کا انتظار اسی طرح کیا جاتا ہے جیسے قومی تہواروں کی تعطیلات کا۔
رحمت کو رجنی کانت کے ساتھ اپنی مشابہت اچھی لگی لیکن شروع میں انہوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کہ جب انہوں نے شکار کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کیں تو لوگ انہیں رجنی کانت سے ملانے لگے۔
عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’سبی میں ڈپٹی کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت کے دوران میں نے شروع میں اپنی رجنی کانت کے ساتھ مشابہت کے بارے میں کیے جانے والے تبصروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
’ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے سوشل میڈیا استعمال کرنا شروع کیا جہاں بہت سے لوگوں نے مجھے اسی نام سے پکارنا شروع کر دیا۔
’میں نے اسے قبول کر لیا کیوں کہ مجھے احساس ہوا کہ خدا نے مجھے ایک بڑے اداکار اور انسان کے ساتھ مشابہت سے نوازا ہے۔‘
اس کے بعد رحمت نے جنوبی انڈیا کے اس فن کار کے منفرد انداز کو اپنانے کا فیصلہ کیا، جو زبردست سٹنٹس کے لیے جانے جاتے ہیں۔
یہ سٹنٹس شاندار لطیفوں اور آن لائن میمز کی بنیاد بنے جس میں انہیں سپر ہیرو کے طور پر دکھایا گیا جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز دوڑ سکتا ہے اور طوفان اور تیز رفتار ٹرینوں کو محض منہ کی ہوا سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رحمت نے ہنستے ہوئے کہا کہ انہیں علم تھا کہ وہ پھر بھی رجنی کانت کی طرح اداکاری نہیں کر سکتے لیکن ایکشن فلموں کے سب سے بڑے سٹار جیسا دکھائی دینے سے جو توجہ انہیں ملی انہوں نے اس سے لطف اٹھایا۔
’مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں طبی معائنے کے لیے کراچی گیا۔ جب میں ایک شاپنگ مال میں گیا تو بڑی تعداد میں لوگ میرے اردگرد جمع ہو گئے اور سیلفیاں بنانی شروع کر دیں۔
’کچھ لوگوں نے پوچھا کہ ’کیا آپ رجنی کانت ہیں؟‘ میں جواب دیا کہ ’ہاں، لیکن میں پاکستانی ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور نیپال کے لوگ ان کی تصویروں پر کمنٹ کرتے ہیں اور انہیں رجنی کانت کہتے ہیں۔
رحمت کے دفتر میں سابق ساتھی غلام حیدر رند کہتے ہیں کہ پورے سبی ضلعے میں لوگ انہیں ان کے اصلی نام کی بجائے رجنی کانت کہہ کر پکارتے ہیں۔
رند کا کہنا ہے کہ ’دوران ملازمت جب کبھی ہم نے انہیں دیکھا کہ جس انداز میں وہ دفتر میں داخل ہوئے، اپنی کار سے اترے اور اپنے کمرے کی طرف گئے تو بلاشبہ ایسی کوئی حرکت نہیں تھی جو رجنی کانت جیسی نہ ہو۔‘
سبی کے رہائشی 27 سالہ عمران ہرا نے کہا کہ وہ ضلعے کی سطح پر منائے جانے والے ایک تہوار میں دیکھ چکے ہیں کہ ہزاروں لوگ رحمت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران کے مطابق: ’رجنی کانت تیلگو یا دوسری انڈین زبانیں بولتے ہیں لیکن رحمت ہمارے ساتھ اردو یا بلوچوں سے بلوچی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس طرح ہمیں وہی فلم سٹار مل گیا لیکن ہماری اپنی شکل میں۔‘
رجنی کانت کا بالوں کو جھٹکنے، سگریٹ اچھالنے اور عینک اتارنے کا مخصوص انداز انہیں ایک مردانہ اور سخت جان ہونا دکھاتا ہے۔
رجنی کانت حقیقی زندگی میں ریلوے قلی، بڑھئی اور بسوں میں ٹکٹ فروخت کرنے کا کام کر چکے ہیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سادہ انسان ہیں جو انکساری سے کام لیتے ہیں۔
رحمت نے بتای کہ انہیں احساس ہوا کہ ان میں سادگی اور انکساری کی وہی خوبیاں ہیں جو اس انڈین سپر سٹار میں ہیں۔
’میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے مجھے وہی شخصیت اور عادات دی ہیں کیوں کہ سرکاری ملازمت کے دوران میں نے لوگوں کی فلاح کے لیے جو ہو سکا وہ کیا۔‘
’اب میں رجنی کانت کے ساتھ ملنا اور ان کے ساتھ تصویر بنانا چاہتا ہوں تاکہ لوگوں کو دکھا سکوں کہ ایک انڈین رجنی کانت ہے اور ایک پاکستانی رجنی کانت ہے۔‘