پاکستان کی تین سالہ بچی افشاں کو سیلاب کا بدبودار پانی پار کرنے کے لیے فولادی شہتیر پر سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہ عمل بلندی پر تنے رسے کے اوپر چلتے ہوئے خود کو متوازن رکھنے جیسا ہے کیوں کہ انہیں نظریں سامنے جمائے رکھنا پڑتی ہیں۔
مون سون کی ریکارڈ بارش کے بعد صوبہ سندھ ضلع دادو کے علاقے چندن موری میں واقع افشاں کے سکول میں پانی بھر گیا تھا۔ اب یہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر افشاں اور ان کے بہن بھائی اس خیمے تک پہنچتے ہیں جہاں انہیں پڑھایا جاتا ہے۔
دوپہر کے وقت یہ خیمے شدید گرمی کی زد میں ہوتے ہیں اور طلبہ اپنی کتابوں کی مدد سے پنکھا جھلتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے سیلاب کا گندہ پانی پیتے ہیں۔ جب نور احمد نامی ٹیچر سوال کا جواب دینے کے لیے ان کا نام پکارتے ہیں تو بہت سارے بچوں میں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں ہوتی۔ نور احمد کا کہنا ہے کہ ’بچے بیمار ہو جاتے ہیں، اکثریت کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے، طلبہ کی حاضری بہت کم ہو جاتی ہے۔‘
سیلاب کی وجہ سے ایک تہائی پاکستان زیر آب آ گیا اور 80 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ سیلاب بہت سے لوگوں کے اب بھی ایک اور رکاوٹ ہے جسے وہ عبور نہیں کر پائیں گے۔ نور احمد کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک بیمار نسل کی پرورش کر رہے ہیں۔‘
تین سو سے زیادہ بچے اور بچیاں ان تین خیمہ سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں وہ فرش پر پلاسٹک کی شیٹیں بچھا کر بیٹھتے اور ایک ساتھ ٹیچر کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔
افشاں کے والد، 23 سالہ عبدالقادر نے بتایا کہ ’اس پل کو پار کر کے بچوں کو سکول بھیجنا خطرناک کام ہے لیکن بچوں کا اور اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہم مجبور ہیں۔‘
پاکستان میں جہاں ملک کا ایک تہائی حصہ یومیہ چار ڈالر سے بھی کم آمدن کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتا ہے، انتہائی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا مشکل کام ہے۔
بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یونیسف) کے مطابق اس سال موسم گرما میں سیلاب نے پاکستان میں 27 ہزار سکولوں کو مکمل تباہ کیا یا نقصان پہنچایا۔ سیلاب نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا جس کے پیش نظر مزید سات ہزار سکولوں کو امدادی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر 35 لاکھ بچوں کی تعلیم کا سسلسلہ بند ہو گیا۔
10 سالہ کامران بابر کے مطابق: ’سب کچھ چلا گیا ہے۔ ہم تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔‘ کامران سکول اور گھر پانی میں ڈوب جانے کے بعد قریبی خیمہ بستی میں رہتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے جڑی بارشوں سے پہلے افشاں اپنی بہنوں کی تقلید کرتے ہوئے اس سکول میں جاتی تھی جسے ہلکا سبز رنگ کیا گیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے بارشیں بالآخر بند ہو گئیں لیکن ان کا سکول ابھی تک کھڑے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
پاکستان کے اس رجعت پسند علاقے میں بہت سے لڑکیوں کو پہلے سے سکول نہیں بھیجا جاتا۔ ان کی پروش گھر کے کام کاج کے لیے کی جاتی ہے۔ وہ طلبہ جنہیں سکول میں داخل کروایا گیا ان کا مستقبل بڑے رقبے پر فصلوں کو تباہ کرنے والی مون سون بارشوں سے پہلے بھی مخدوش تھا۔ گذشتہ دو سال کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے سکول 16 ماہ تک بند رہے۔
موندر کے قریبی قصبے میں مون سون کے طوفانوں کی وجہ سے سرکاری سکول کے چھت اڑ گئی۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور ان کی حالت خستہ ہے۔ اب طلبہ باہر بیٹھتے ہیں کیوں کہ انہیں خطرہ ہے کہ سکول کی عمارت گر جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لڑکے صحن میں لگے درخت تلے بیٹھتے ہیں، بیٹھ کر پڑھتے ہیں جب کہ لڑکیاں قریب ہی عطیہ کیے گئے خیمے میں جمع ہوتی ہیں۔ ٹیچر رابعہ اقبال کہتی ہیں کہ ’اس طرح کی صورت حال کے لڑکیوں پر ہمیشہ رہنے والے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ہم انہیں دماغی طور پر صحت مند بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں فوری طور پر خیموں سے باقاعدہ کلاس رومز میں منتقل کرنا ہو گا۔‘
لیکن ان کی سکول فوری واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ سکولوں کی تعمیر نو اور تعلیمی نظام کی بحالی کے اخراجات تقریباً ایک ارب ڈالر ہوں گے۔ مکمل بحالی پر 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ خرچ کرنے ہوں گے ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔
آگے آنے والی مشکلات سے بے خوف چندن موری ہائی سکول کی طالبات تین کلو میٹر پیدل چل کر عارضی کلاش روم میں جاتی ہیں۔ 13 سالہ طالبہ شائستہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان حالات سے ہار نہیں مانیں گے۔‘