قدرتی حسن سے مالا مال بہت کم علاقے ایسے ہوں گے جن کا درد کشمیر جیسا ہو۔
ہمالیائی خطے میں واقع کشمیر 70 برس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع چلا آ رہا ہے۔ اس دوران یہاں عسکریت پسند سرگرم رہے، کشمیری ہندوؤں کو جبری انخلا کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ حکام نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مسلمان اکثریتی کشمیر میں پانچ لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں جو مبینہ طور پر مظالم میں ملوث ہیں۔ کشمیر وہ علاقہ ہے جو تاریخ کے بوجھ تلے دبا ہے اور جہاں بہتری کی خواہش ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس معاملے میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں انہوں نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران پیش کش کی کہ وہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ثالثی کے لیے کہا۔
صدر ٹرمپ نے کہا: ’دو ہفتے پہلے میں وزیراعظم مودی کے ساتھ تھا اور انہوں نے واقعی کہا ’کیا آپ ثالث یا مصالحت کار بننا پسند کریں گے؟‘ میں نے کہا، ’کس معاملے میں؟‘ انہوں نے کہا ’کشمیر۔‘ میں نے کہا ’اگر میں مدد کرسکتا ہوں تو میں ثالث بننا پسند کروں گا۔‘
جو لوگ پاکستان اور بھارت کے بارے میں جانتے ہیں، ان کے لیے یہ وہ لمحہ تھا جب وہ حیران رہ گئے۔ بھارت امریکی صدر کو ثالثی کے لیے کیوں کہے گا جب 1972 سے اس کا مؤقف یہی رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف دونوں ملک ہی حل کر سکتے ہیں؟ ایک گھنٹے کے اندر ہی بھارتی حکومت نے واضح کردیا کہ اس نے امریکی حکومت سے مدد کی درخواست بالکل نہیں کی۔
جس کے بعد صدر ٹرمپ کا مذاق اڑایا گیا۔ اس مسخرے کو خاتون اول کے پہنے ہوئے [پشمینہ] سوئٹرز کے علاوہ کشمیر کے بارے میں کیا معلوم ؟ ٹرمپ ایشیا کے بڑے جمہوری ملک کو غصہ دلانے کا رسک کیوں لیں گے، جسے امریکہ چین کے مقابلے میں دیکھنا چاہتا ہے؟ اورٹرمپ کشمیر کے لیے کر ہی کیا سکتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے کو دیکھنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے جو ناکامیوں کے ایک ریکارڈ کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 70 برس سے بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے خطے پرغلبے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں پہاڑ، سیب، باغات اور اخروٹ کے درخت ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ بیک وقت دونوں ملکوں نے ایک نہیں پانچ نمایاں شعبوں میں بڑی حد تک کشمیری عوام کی تشویش کو نظرانداز کردیا ہے۔
اسلام آباد نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی درخوستیں مسترد کر دی ہیں جو مکمل صوبے بننا چاہتے ہیں اور مزید حقوق چاہتے ہیں۔
دوسری جانب80 کی دہائی کے آخر میں بھارتی حکومت نے ان ہزاروں ہندو پنڈتوں کے لیے کچھ نہیں کیا جو وادی کشمیر سے اُس وقت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جب طے شدہ نتائج والے انتخابات پر ناراض مسلمان برداری نے حکومت مخالف جدوجہد میں تیزی لائی تھی۔
اس وقت سے پانچ لاکھ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں نے سری نگر اور دوسرے شہروں میں خاردار تار بچھانے کے ساتھ ساتھ بنکر قائم کردیے اور اکثر پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ بھارتی فوج کے اقدامات کو ایک شرمناک قانون ’دی آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘ کا تحفظ حاصل ہے جس کے تحت فوج کو کچھ بھی کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔
ان حالات میں پاکستانی اور بھارتی حکومتوں نے کشمیر کو ایک سٹرٹیجک مہرے کے طور پر استعمال کیا، جس میں پاکستان نے بھارت کے زیر اہتمام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے کے لیے اقوام متحدہ سے اپیلیں کیں تو بھارت نے کشمیریوں کے زیادہ خود مختاری کے مطالبے کو پاکستانی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دیا۔
یہ کوئی اچھا ریکارڈ نہیں ہے۔ 75 ہزار تک فوجی، شہری اور پولیس افسر حملوں، بم دھماکوں اور سرحد پار سے گولہ باری میں اپنی زندگیوں ہاتھ دھو چکے ہیں۔ یہ سب ایک ایسی سرزمیں پر ہوا جو کشتیوں میں قائم گھروں اور شاعری کا گھر ہے اور جو 1980 کی دہائی تک سیاحوں کا خواب اور بالی وڈ فلموں کے لیے موزوں فلمنگ لوکیشن تھی۔
ایسا بالکل نہیں کہ دونوں ملکوں کے شہریوں کی بڑی تعداد امن نہیں چاہتی۔2001 میں پاکستان کے سابق صدر پرویزمشرف اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کشمیر پر معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے جس کی بدولت کشمیرغیرفوجی علاقہ بن جاتا، جہاں نقل و حرکت کی آزادی ہوتی اور موجودہ لائن آف کنٹرول دونوں ملکوں کے درمیان سرحد بن جاتی۔
یہ معاہدہ نہ ہو سکا اور دونوں ممالک اشتعال میں آگئے اور ہزاروں کی تعداد میں فوجی دونوں سرحدوں پر پہنچ گئے۔ 2001 کے آخر اور 2002 کے آغاز میں کئی ماہ تک دونوں ملکوں میں مقیم غیرملکی سفارت کاریہ سمجھتے رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تباہ کن جنگ ہونے والی ہے۔
پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر پر بہتر معاہدہ کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو طاقتور پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے، جسے اس معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنی ہوگی۔
اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حیثیت بھی مضبوط ہے۔ وہ ایک ایسے ہندو قوم پرست رہنما ہیں جنہوں نے حال میں دوسری بار انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل کی۔ اس صورت حال میں سخت گیرعناصر کی جانب سے امن معاہدے میں رکاوٹ ڈالنا مشکل ہو گا جیسا ماضی میں ہوتا رہا، جیسے بھارت میں آنجہانی راجیو گاندھی اور پاکستان میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم اور سابق کرکٹر عمران خان کو ہمسایہ ممالک بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کشمیر کے معاملے میں فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے ایک بار کہا تھا: ’مجھے بھارت میں بہت پیار ملا ہے۔‘
مسئلہ کشمیر پر کسی معاہدےکی صورت میں امریکہ کا کردار ایک ضمانتی کا ہوگا۔ امریکہ مطالبہ کرے گا پاکستان سرحد پار سے بھارت کے زیر انتظام کشمیرمیں مبینہ مداخلت بند کرے اور دونوں ملکوں پر زور دے گا وہ اپنی اپنی فوج ہٹا لیں۔
اگر ایسا معاہدہ ہوا تو اس کے تحت پاکستان اور بھارت کو مساوی فریق کی حیثیت حاصل ہوگی جبکہ شفافیت شرط ہو گی۔ اس طرح کے معاہدے سے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے بشمول افغانستان میں استحکام آئے گا۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیں؟ بلاشبہ نہیں۔ لیکن چاہے ان کے ناقدین یہ تسلیم کریں یا نہیں، اور ان کے مقاصد کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے۔ وہ ایک ڈسرپٹر ہیں، ایک بے ڈھنگے مسخرے جو معاملوں میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑاتے ہیں۔
چاہے ٹرمپ کی شمالی کوریا کے حوالے سے پالیسی پائیدار ہو یا نہ ہو یہ اب بھی غیر واضح ہے، لیکن ان کا کم جونگ ان کے ساتھ شمالی کوریا کے غیرفوجی علاقے میں داخلے کا مناظرحقیقی طور پر قابل ذکر ہیں۔
پاکستان اور بھارت برطانیہ کی سابق نوآبادیاں ہیں جنہوں نے تقسیم کے وقت بڑی خونریزی کے دوران آزادی حاصل کی۔ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی اپنے معاملے میں کسی مغربی ملک سے لیکچر لینا پسند نہیں کرے گا۔
صدر ٹرمپ کے کشمیر پر بیان کو بہتوں نے ان کے لاعلمی کی ایک اور مثال قرار دے کر مسترد کردیا، لیکن انہوں نے پیرکو بات کرتے ہوئے کسی حد تک ایک قابل ذکر نکتہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا: ’برسوں سے ایسا ہو رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایسا کتنے برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔‘
پاکستان اور بھارت کئی برسوں سے کشمیر کے معاملے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کیوں نہیں کرتے؟ بعض اوقات، پاگل پن پر مبنی صورت حال کا حل بھی پاگل نظرآنے والا ہی ہوتا ہے۔
© The Independent