خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے باجوڑ میں قائم گورنمنٹ وومن وکیشنل ٹریننگ سینٹر قبائلی علاقہ جات کا وہ واحد ادارہ شمار کیا جاتا ہے جہاں خواتین کو تکنیکی تربیت دی جاتی ہے۔
ووکیشنل سینٹر کی پرنسپل عنبرین رشید کا کہنا ہے کہ ’اس ادارے میں تعلیم سے محروم خواتین اور بچیوں کو ووکیشنل تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ان کی ٹرینینگ ہم اس لحاظ سے کرتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسا ہنر دیا جائے جس سے وہ اپنے لیے کمائی بھی کر سکیں اور اپنے گھر کو بھی چلا سکیں۔
’ان خواتین کی اپنی ثقافتی مجبوریاں ہیں، ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں رہ کر کام کر سکیں۔‘
پرنسپل نے بتایا کہ ’جن خواتین نے میٹرک کیا ہوتا ہیں ان کو کمپیوٹر سے متعلق ٹریننگز دیتے ہیں اور جن بچیوں نے بلکل تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی ان کو نیٹنگ، ایمبرائڈری، کشیدہ کاری، اس کے علاوہ کھانا پکانے کے کورسز، بیوٹیشن کے کورسز کراتے ہیں۔‘
’اس کے علاوہ قالین بنانا جو پاکستان کی خاصیت ہیں اور 80 کی دہائی میں بنا کرتے تھے اور اس کو ہم نے دوبارہ سے زندہ کیا ہے۔‘
ان کے بقول ’بچیاں گھر بیٹھ کر اس کام سے کمائی کرسکتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینٹر سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’یہ ایک حکومتی ادارہ ہے جو کہ فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت آتا تھا، اب چونکہ علاقے ضم ہوگئے ہیں تو کے پی ٹیکنیکل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے تحت آتا ہے۔‘
’یہ ادارہ 2015 میں فعال ہوا تھا اور اس سے اب تک تقریبا 800 سے 900 کے قریب بچیاں ہم سے تربیت لے چکی کی ہیں اور ہمیں سات سال ہو چکے ہیں۔ یہ چھ مہینے کا کورس ہوتا ہیں جس کا آغاز مارچ سے ہو کر ستمبر میں ختم ہوتا ہے۔ ستمبر سے پھر مارچ کے درمیان دوسرا سیشن شروع ہوتا ہے اس کے درمیان بھی بہت سے کورسز آتے ہیں جن کی فیس ہوتی ہے۔ ہم سکالرشپ بھی دیتے ہیں فری کورسز بھی کراتے ہیں۔‘
پرنسپل نے بتایا کہ ’کمپیوٹر کے کورسز کرنے والی لڑکیاں نادرا اور دیگر دفاتر میں کام کرتی ہیں اور کمپیوٹر کی تعلیم کے لیے انہوں نے خاتون ٹیچر کا انتظام بھی کیا ہے۔‘
’یہاں پہ ہم محدود ہیں کیونکہ ہمارا کام بطور ادارہ ٹریننگ دینا ہے اس کے علاوہ ہم ان کو یہ بھی ٹریننگ دیتے ہیں کہ آپ نے کیسے چیز بیچنی ہے اس کے بعد جو سسٹم ہوتا ہے اس کے لیے اب ہم پرائیویٹ اداروں کے ساتھ شراکت کرنے لگے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ’اس طرح کی ادارے دیگر ضم شدہ اضلاع میں بھی بنائے جائیں کیونکہ قبائلی اضلاع میں خواتین کی بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے اس لیےان کو کام سکھانا بہت زیادہ ضروری ہے۔‘