پاکستان افغانستان میں جھڑپ: ایک سکیورٹی اہلکار جان سے گیا

ابتدائی اطلاعات کے مطابق پاکستانی علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر پر کشیدگی گذشتہ کئی روز سے جاری ہے۔

22 جنوری 2017 کو قبائلی ضلع کرم کے دارالحکومت پاراچنار میں ایک چیک پوسٹ پر پاکستانی فوجی پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی/ باسط گیلانی)

پاکستان افغانستان سرحد پر واقع قبائلی ضلع کرم کے علاقے خرلاچی میں پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جس میں حکام کے مطابق ایک فوجی سپاہی جان سے گیا۔

پارا چنار کے ضلعی ہیڈکواٹرز ہسپتال کے ایک اعلامیے کے مطابق پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان اتوار کی شب پونے دس بجے کے قریب خرلاچی کے مقام پر ایک جھڑپ ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے صوبے پکتیا کے علاقے ڈنڈ پتن اور پاکستانی سرزمین کے اندر واقع باروکئی کے علاقے میں پیش آیا۔

اس تصادم میں ہسپتال کے مطابق نو افراد مجموعی طور پر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سات فوجی سپاہی اور دو عام شہری شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے خرلاچی بارڈر پر افغان طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ گذشتہ تین دنوں سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔

پارا چنار کے پولیس کنٹرول روم کے اہلکار اسد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار سے فائرنگ گذشتہ تین دنوں سے جاری ہے۔‘

اسد خان نے بتایا کہ ’بارڈر پر تناؤ برقرار ہے کیونکہ فائرنگ کا یہ سلسلہ گذشتہ تین دنوں سے جاری ہے جبکہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے بارڈر پر افغان طالبان کی طرف سے خلاف ورزی کا جواب دیا جاتا ہے۔‘

افغان میڈیا کے مطابق سرحد کے اس پار بھی کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے افغان طالبان کی جانب سے کوئی باقاعدہ موقف سامنے نہیں آیا کہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں افغان طالبان کے کتنے اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ 

ابتدائی اطلاعات کے مطابق پاکستانی علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر کے معاملے پر یہ کشیدگی کئی روز سے جاری تھی۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں سڑک کی تعمیر میں مصروف لوگوں پر فائرنگ کی گئی ہے۔

دوسری جانب افغان میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان سرحد کے قریب فوجی چوکیاں تعمیر کی جا رہی تھیں۔

ایک قبائلی جرگے نے گذشتہ دنوں فائر بندی کروائی تھی لیکن کرم میں مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ’آج سڑک کی تعمیر شروع کرنے پر دوبارہ فائرنگ شروع کی گئی جو شام تک جاری رہی۔‘

تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس جھڑپ کے حوالے سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کی استعمال کی جانے والی زبان پر بھی تنقید سامنے آ رہی ہے۔

بظاہر انتظامیہ نے کسی پرانے اعلامیے کو استعمال کیا جس کے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ۔۔۔۔‘

ہسپتال انتظامیہ کے مطابق لائے گئے تمام زخمی افراد کو ابتدائی طبی امداد مہیا کر دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی ساجد حسین طوری نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر کرم بارڈر کی مسلسل خلاف ورزی، جارحیت اور شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

 

اس حوالے سے جب کرم کے ڈپٹی کمشنر واصل خٹک سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس وقت وہ اسی حوالے سے ایک اجلاس میں ہیں اور اس حوالے سے مزید تفصیلات بعد میں دی جائیں گی۔

اس تنازعے کی وجوہات کیا ہیں؟

کرم خرلاچی بارڈر پر گذشتہ کئی مہینوں سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے اور اس کی وجہ سرحد کے دونوں جانب رہنے والے قبائل کے مابین زمینی تنازع بتایا جاتا ہے۔

پارا چنار کے مقامی صحافی ارشاد حسین طوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اصل میں کرم کے بارڈر پر پاکستانی گاؤں خرلاچی اور بوڑکی گاؤں کے لوگوں کی کچھ زمینیں پاک افغان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد افغانستان کی طرف رہ گئی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’جب باڑ لگائی جا رہی تھی تو پاکستانی جانب پر موجود خرلاچی اور بوڑکی کے لوگوں نے حکومت کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ ہماری زمینیں افغانستان کی طرف پر رہ جائیں گی۔‘

ارشاد حسین کے مطابق ’اس پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ باڑ لگانے کے معاہدے میں یہ شامل ہے کہ وہ افغانستان کی طرف موجود اپنی زمینوں کو کاشت کے لیے استعمال کر سکتے ہے۔ تاہم اب افغانستان کی نگران حکومت نے انہی زمینوں پر مبینہ طور پر روڈ اور کچھ بارڈر پوسٹس لگانے کا کام شروع کر رکھا تھا جس کے خلاف خرلاچی اور بوڑکی کے لوگوں نے مزاحمت کی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ارشاد حسین نے بتایا کہ ’اس وجہ سے افغان طالبان کی جانب سے فائرنگ کی گئی تھی جس میں بوڑکی گاؤں کے دو بچے زخمی ہو گئے۔‘

ارشاد کے مطابق ‘جب افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار سے فائرنگ کا سلسلہ نہیں رکا تو پاکستان سکیورٹی فورسز نے جوابی فائرنگ  کی اور یہ کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔‘

پاکستان افغان بارڈر پر پاکستانی حکام کی جانب سے باڑ لگانے کا کام 2017 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ سرحد پار سے بارڈر کی خلاف ورزیوں اور وہاں سے شدت پسندوں کی غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخلے کو روکا جا سکے۔

اسی حوالے سے پارا چنار سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ساجد حسین طوری کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سرحد پار کے لوگ(افغان طالبان) خرلاچی اور بوڑکی کی پاکستانی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جارحیت اور جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘

پارا چنار کے طوری قبائل کے مشر عنایت علی طوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے بوڑکی گاؤں کی تقریبا چار ہزار کنال زمین افغانستان طرف رہ گئی ہے اور ہم نے اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ متعدد بار رابطے بھی کیے ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ روز افغان طالبان کی جانب سے انہی زمینوں میں سڑک کی تعمیر شروع کی گئی تھی اور پہلے ہم نے طالبان کو متنبہ کیا لیکن وہ باز نہیں آئے جس کی وجہ سے ہم نے طالبان کی جارحیت کا جواب دیا۔‘

عنایت کے مطابق ’اس کے بعد ہم نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بات کی کہ طالبان سویلین آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسی کی جواب میں سکیورٹی فورسز نے سرحد پار سے کی جانے والی فائرنگ کا جواب دیا۔‘

عنایت کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہر قیمت ہر اپنی زمینوں کا دفاع کریں گے اور کسی کو بھی اپنی زمینوں پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان