’قطر میں ورلڈ کپ سے فٹ بال کا بھیانک چہرہ سامنے آ گیا۔‘
’قطر نے ورلڈ کپ تو خرید لیا مگر وفا نہیں خرید سکا۔‘
’ورلڈ کپ کا بھیانک چہرہ۔‘
یہ تمام وہ ہیڈلائنز ہیں جو مغربی میڈیا نے قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے حوالے سے لگائیں۔
گذشتہ کچھ ہفتوں سے مغربی میڈیا قطر کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اور اس کی وجہ مغربی میڈیا کے مطابق قطر میں موجود غیر ملکی ورکرز کے ساتھ سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اس حوالے سے قطر کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔
تاہم فیفا کے چیئرمین نے ورلڈ کپ سے ایک دن پہلے اپنی پریس کانفرنس میں اس تنقید کو ’مغرب کا دوغلا پن‘ قرار دیا تھا۔
فیفا کے چیئرمین جیانی انفانٹینو کا کہنا تھا؛ ’ہم (یورپی) جو دنیا کے ساتھ گذشتہ تین ہزار سال تک کرتے رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے دنیا سے اگلے تین ہزار سال تک معافی مانگنی چاہیے۔‘
اسی طرح ایک فرانسیسی اخبار میں ایک کارٹون بھی شائع کیا گیا جس میں قطری کھلاڑیوں کو بندوق بردار دکھایا گیا جس پر قطری شائقین کی جانب سے اسے ’نسل پرستی‘ اور ’اسلاموفوبیا‘ قرار دیا گیا۔
قطر میں اس وقت دنیا بھر سے ایک ہزار سے زائد صحافی موجود ہیں جو کھیلوں کی دنیا کے اس بڑے ایونٹ کی کوریج کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان میں سے چند صحافیوں سے بات کی اور ان سے مغربی میڈیا کی کوریج کے حوالے سے پوچھا۔
نور فٹ بال ورلڈ کپ پر ڈاکیومینٹری بنانے کی غرض سے ترکی سے قطر آئی ہیں اور انہیں یہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’میری نظر میں یہ (کوریج) غیر منصفانہ ہے، مجھے یہ سب کچھ خود اپنی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
قطر کی جانب سے مغربی میڈیا پر اسلامو فوبیا کے الزام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’بالکل یہ اسلام نفرت پر مبنی ہے، میں خود ایک مسلمان ہوں اور اس کے پیچھے بالکل اسلاموفوبیا ہے مگر یہاں پر جو مغربی افراد موجود ہیں ان میں اسلاموفوبیا نہیں ہے۔‘
یاگو پلوٹزی کا تعلق امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے ہے۔ مغربی میڈیا کی کوریج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مختلف رپورٹس دیکھی تھیں مگر میں جب سے یہاں آیا ہوں، میں زیادہ باہر تو نہیں جا سکا مگر میں جتنا بھی باہر گیا ہوں تو مجھے حالات ٹھیک لگے ہیں۔‘
قطر پر الزامات کے پیچھے ممکنہ سیاست کے سوال پر ان کا کہنا تھا: ’آج کل ہر چیز کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ ہم کسی کنسرٹ کے لیے جائیں یا کسی فٹ بال میچ کے لیے جائیں تو اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ دوعا لیپا اور شکیرا احتجاجاً افتتاحی تقریب میں نہیں آئیں، بی بی سی نے احتجاج کے طور پر افتتاحی تقریب نشر نہیں کی، انفانٹینیو (فیفا چیئرمین) نے کہا تھا کہ یہ صرف فٹ بال ہے، مگر آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں (سیاست اور کھیل) کو الگ رکھنا مشکل ہے، سب کچھ جڑا ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک میں جانتا ہوں یہ ایک اچھا ورلڈ کپ ہے، اچھا انتظام کیا گیا ہے۔ مگر ایک واحد چیز یہ ہے کہ فین فیسٹیول میں یہ (انتظامیہ) لوگوں کو ہینڈل نہیں کر پا رہی، جو ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
اسلاموفوبیا کے حوالے سے الزامات پر ان کا کہنا تھا: ’یہ سچ ہے کہ بہت سے نقاد ہیں اور ان میں سے کافی صحیح بھی ہیں اور ان کی تنقید بے بنیاد نہیں مگر ہر ملک کے مسائل ہیں اور انہوں نے خلاف ورزیاں کی ہیں، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔‘
لیتھوینیا سے ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے آنے والی صحافی دیویلا کے مطابق مغربی میڈیا کے خدشات درست ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میری نظر میں یورپ اور عرب ممالک کے درمیان ایک بڑا تنازع ہے۔ مجھے آئے ہوئے صرف ایک دن ہی ہوا ہے اور مجھے یہ واضح ہو گیا ہے۔ مغربی میڈیا انسانی اقدار، انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بات کر رہا ہے اور ہم اس پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے۔ اور پھر عرب دنیا ہے جنہیں ایک زبردست موقع ملا ہے اور تمام عرب ممالک اسے ایک کامیابی بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یہ ایک بڑا تنازع ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مگر آخر میں آپ کو اسے انسانیت کے لحاظ سے دیکھنا ہو گا۔ آپ کی اقدار ہو سکتی ہیں، آپ کی خاندانی اقدار ہو سکتی ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ مرد اور خواتین برابر ہیں۔‘
کیا یہ ٹورنامنٹ قطر کے لیے ایک کامیابی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں لگتا کہ قطر نے اتنا کچھ حاصل کر لیا ہے جتنا وہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے اس ورلڈ کپ کے لیے کافی رقم خرچ کی ہے۔ شاید قطر نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنی زیادہ تنقید ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ عرب دنیا کے لیے کامیابی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ عرب دنیا کا پہلا ورلڈ کپ ہے اور وہ اس بات پر فخر محسوس کر سکتے ہیں مگر عالمی لحاظ سے یہ ایک کامیابی نہیں ہے۔ سارا مغرب سمجھتا ہے کہ یہ ورلڈ کپ یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
اسلاموفوبیا کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’نہیں، میرے خیال میں یہ اسلاموفوبیا نہیں، یہ ثقافت کی بات نہیں کیونکہ آپ کی اپنی ثقافت ہو سکتی ہے، مگر آپ کو ہر کسی کو انسانیت کے پیرائے میں دیکھنا ہوتا ہے۔‘
گوڈسن بوجلین ہیٹی نژاد امریکی ہیں۔ وہ قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ پر ڈاکیومینٹری بنانے آئے ہیں اور وہ دیویلا کی باتوں سے متفق نہیں۔ انہوں نے کہا: ’میں قطر پہلی بار آیا ہوں اور میں نے میڈیا پر خبریں دیکھی ہیں مگر قطری حکومت ہمیشہ سے ان خبروں کی تردید کرتی رہی ہے۔‘
بقول گوڈسن: ’ان (قطری حکومت) کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت سی تبدیلیاں کی ہیں، لوگوں سے اچھے طریقے سے برتاؤ کیا جا رہا ہے اور مجھے ان کی باتوں پر یقین ہے کیونکہ جب بھی ترقی ہوتی ہے تو کچھ لوگ آپ کو خوش نظر نہیں آتے۔ آپ کو ہمیشہ ایسے لوگ ملیں گے جو کسی دوسرے کی ترقی سے خوش نہیں ہوں گے۔
’مجھے لگتا ہے کہ قطر صحیح رستے پر ہے۔ گذشتہ روز انہوں نے تاریخ رقم کی۔ یہ ان کا پہلا ورلڈ کپ ہے اور ابھی تک سب کچھ اچھا چل رہا ہے۔‘
اسلامو فوبیا کے حوالے سے گوڈسن نے کہا: ’ایک غریب ملک میں پیدا ہونے کے ناطے میں سمجھ سکتا ہوں کہ (قطر کی جانب) سے یہ کیوں کہا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس چیز کو کبھی مانا ہی نہیں گیا کہ وہ (قطر) ورلڈ کپ کی میزبانی کر سکتا ہے۔ اب انہیں میزبانی مل گئی تو ان پر تنقید نہیں رکے گی۔ اس ناسور کی یہی فطرت ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے قطر پر تنقید جاری رہے گی۔
’اگر قطر تاریخ کے سب سے اچھے ورلڈ کپ کا انعقاد بھی کر لے تو پھر بھی تنقید جاری رہے گی۔ وہ کوئی نہ کوئی غلطی نکال لیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ قطر کو موقع دینا چاہیے۔ قطر کو شک کا فائدہ دینا چاہے اور ورلڈ کپ کو مکمل ہونے دینا چاہیے۔‘