فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کا آغاز 20 نومبر سے قطر میں ہونے جا رہا ہے، جس میں دنیا بھر سے 32 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
قطر میں اس سلسلے میں تمام تر انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور فٹ بال کے شائقین نے پہلے سے ہی مختلف مقابلوں کے لیے ٹکٹ بھی خرید لیے ہیں۔
فیفا ورلڈ کپ کے لیے قطر نے ’حیا کارڈ‘ کے نام سے ایک مخصوص کارڈ متعارف کروایا ہے، جسے قطر کا ویزا بھی کہا جا سکتا ہے۔ میچز دیکھنے کی غرض سے یہی کارڈ استعمال کر کے قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور سعودی عرب کا سفر کیا جا سکتا ہے۔
فٹ بال کی عالمی تنظیم ’انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹ بال‘ (فیفا) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ ورلڈ کپ 23 دسمبر تک جاری رہے گا۔
فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی سے متعلق ایک دلچسپ تاریخی حقیقت موجود ہے اور وہ ہے ٹرافی کا انگلینڈ میں چوری ہو جانا اور مزید دلچسپ بات یہ کہ اس گمشدہ ٹرافی کی برآمدگی میں ایک کتے نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
فیفا ٹرافی کی تاریخ (1928 تا 1970)
ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کی ٹرافی فاتح ٹیم کے حوالے کی جاتی ہے، جو کھیلوں کی دنیا کا ایک اہم انعام یا اعزاز تصور ہوتا ہے۔
فٹ بال کے عالمی مقابلوں کی پہلی ٹرافی فٹ بال ورلڈ کپ متعارف کروانے والی فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ جولس ریمیٹ کے نام سے منسوب کی گئی تھی۔
دنیا کا پہلا فٹ بال ورلڈ کپ 1930 میں یوروگوئے میں کھیلا گیا تھا۔
’فٹ بال ہسٹری‘ نامی تنظیم کے مطابق 18ویں صدی میں غیر سرکاری فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد کیا گیا تھا جبکہ 1901 اور 1911 میں اسی طرح کے غیر سرکاری مقابلے منعقد ہوئے تھے۔
اولمپکس کی ویب سائٹ کے مطابق فٹ بال ورلڈ کپ کی پہلی ٹرافی ایک فرانسیسی آرٹسٹ ایبل لیفلیئر نے ڈیزائن کی تھی، جسے 1932 میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس میں ہونے والے اولپمکس مقابلوں میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔
اس ٹرافی پر یونانی فتح کے دیوتا کا مجسمہ بنایا گیا تھا، جس کے ہاتھ میں آٹھ اطراف والا کپ اور گلے میں مالا تھی۔
اولمپکس ویب سائٹ کے مطابق 35 سینٹی میٹر اونچی اور چار کلوگرام وزنی ٹرافی کو فرانسیسی زبان میں ’کُو دی مانڈے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
سونے کی پلیٹوں سے بنی ٹرافی کا پیندا نیم قیمتی پتھر لوپیز لازولی سے بنایا گیا تھا اور اس کے چاروں طرف لگی سونے کی پلیٹوں پر فاتح ٹیموں کے نام کنندہ کیے گئے تھے۔
اسی ٹرافی کو 1946 میں فیفا کے صدر جولس ریمیٹ کی صدارت کی 25 ویں سالگرہ کی تقریب میں بھی رکھا گیا تھا جبکہ بعدازاں فیفا ورلڈ کپ کی خاطر اسے بحری جہاز کے ذریعے یوروگوئے منتقل کیا گیا، جہاں میزبان ٹیم ایونٹ جیت کر اس کی حقدار بنی۔
جنگ میں ٹرافی کی حفاظت
سال 1939 میں دوسری جنگ عظم شروع ہوئی اور فیفا کی انتظامیہ کی سب سے بڑی پریشانی ٹرافی کی حفاظت بن گئی۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والے فیفا کے اس وقت کے صدر اوٹورونی براسی اس سلسلے میں اچھوتا قدم اٹھاتے ہیں اور روم میں بینک کے والٹ میں پڑی ٹرافی کو جوتوں کے ڈبے میں رکھ کر اپنے بیڈ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔
جوتوں کے ڈبے میں پڑی اس ٹرافی نے دوبارہ دن کی روشنی 1950 میں دیکھی، جب اسے برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے نکالا گیا۔
ٹرافی کی چوری
فٹ بال ورلڈ کپ کی ٹرافی دوسری جنگ عظم میں تو محفوظ رہی، تاہم زمانہ امن کے دوران 1966 میں برطانیہ میں ہونے والے عالمی مقابلوں سے چار مہینے پہلے چرا لی گئی۔
اس سال کے ورلڈ کپ سے قبل ٹرافی لندن کے ایک چرچ میں ٹکٹوں کی نمائش میں رکھی گئی تھی، جہاں سے ہوشیار چور 30 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 80 لاکھ روپے) قیمت کی ٹرافی کو اڑا لے گیا، جبکہ وہاں موجود کروڑوں روپے مالیت کے ٹکٹس کو چھوا تک نہیں۔
چوری کے بعد فیفا اور چیلسی فٹ بال کلب کو 15 ہزار پاؤنڈ (تقریباً 40 لاکھ روپے) کے تاوان کی رقم کا مطالبہ موصول ہوتا ہے، جس کے ساتھ چور ٹرافی کا ایک ٹکڑا بھی بھیجتا ہے۔
ٹرافی کی برآمدگی اور چور کی گرفتاری کی غرض سے ایک منصوبے کے تحت چور کو لندن میں چیلسی سٹیڈیم کے قریب سٹیمفرڈ پل پر بلایا جاتا ہے، جہاں اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
دوران تفتیش چور کی شناخت ایڈورڈ بھیچلے کے طور ہوتی ہے، جو اس زمانے کا مشہور چور تھا، جس نے اعتراف کیا کہ اس نے ’دی پول‘ نامی شخص کے کہنے پر چوری کی تھی۔
بعدازاں ایدورڈ کو دو سال قید کی سزا ہو جاتی ہے، لیکن فٹ بال کپ کی ٹرافی اب بھی غائب ہے۔
ٹرافی کیسے برآمد ہوئی؟
اولمپکس کی ویب سائٹ کے مطابق فیفا ورلڈ کپ کی گمشدہ ٹرافی کی برآمدگی میں ایک کتے نے مدد کی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ لندن کے رہائشی ڈیوڈ کوربیٹ اپنے کتے کے ساتھ جنوبی لندن میں معمول کی چہل قدمی کر رہے تھے کہ اس دوران وہ فون کال کی غرض سے ایک فون بوتھ پر رکے۔
جب ڈیوڈ فون پر مصروف تھے تو ان کا کتا قریب ہی اخبار میں لپٹے ایک پیکٹ کو سونگھ رہا تھا۔
ڈیوڈ نے فون سے فارغ ہونے کے بعد پیکٹ اٹھایا، جسے کھولنے پر اندر سے ایک خاتون کا مجسمہ برآمد ہوا، جس نے ایک کپ اٹھایا ہوا تھا اور اس پر جرمنی، یوروگوئے اور برازیل کا نام کنندہ تھا۔
ڈیوڈ نے ٹرافی مقامی پولیس سٹیشن کے حوالے کی، جہاں انہیں کچھ وقت کے لیے شک کے تحت حراست میں رکھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گمشدہ ٹرافی ڈھونڈ لینے کے انعام کے طور پر بعد ازاں ڈیوڈ کو چھ ہزار پاؤنڈ کا انعام بھی دیا گیا، جبکہ ان کے کتے کے لیے تاحیات مفت خوراک کا اہتمام کیا گیا تھا۔
برآمدگی کے بعد 1970 میں برازیل نے تیسری مرتبہ ورلڈ کپ جیتا اور قوانین کے مطابق ریمیٹ کی ٹرافی مستقل طور پر اس جنوبی امریکی ملک کو مل گئی۔
ورلڈ کپ کی ٹرافی 1983 میں دوبارہ چوری ہوئی، لیکن اس مرتبہ کبھی برآمد نہ ہو سکی۔
اوریجنل ٹرافی کی 1984 میں ایک نقل بنائی گئی، جبکہ 1966 میں انگلینڈ میں چوری کے بعد بھی ایک نقل تیار کی گئی تھی اور یہ دونوں نقول فیفا نے 1997 میں ایک نیلامی میں خرید لی تھیں۔
آج کل اوریجنل ٹرافی کا اگر کوئی حصہ موجود ہے تو وہ صرف ٹرافی کا پیندا ہے، جو فیفا کے ہیڈ کوارٹر سے برآمد ہوا تھا۔
فیفا ٹرافی 1974 سے آج تک
فیفا ورلڈ کپ کی دور حاضر کی ٹرافی کو ڈیزائن کرنے کے لیے سات ممالک سے 53 آرٹسٹ نے ڈیزائن جمع کروائے تھے، تاہم اٹلی کے آرٹسٹ سیلویو گزانیگا کے ڈیزائن کو کامیاب قرار دیا گیا۔
فیفا ورلڈ کپ کی موجودہ ٹرافی جو 36.5 سنٹی میٹر اونچی چھ کلو گرام وزنی ہے کے اوپر سپائرل ڈیزائن میں سونے کی لائننگ لگائی گئی ہے جبکہ اندر سے یہ ٹرافی کھوکھلی ہے۔
اسی ٹرافی پر 1994 میں پلیٹس لگائی گئی تھیں، جن پر ورلڈ کپ کی فاتح ٹیموں کا نام لکھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ فیفا ورلڈ کپ کے فاتح کو اصل ٹرافی کی بجائے اس کا گولڈ پلیٹڈ برانز ریپلیکا دیا جاتا تھا۔