نواسہ رسول امام حسین کا روضۂ اطہر عراق کے شہر کربلا میں واقع ہے۔ اسی مقام پر 1400 سال پہلے واقعہ کربلا پیش آیا تھا۔ قدیم روایات بتاتی ہیں کہ کربلا ایک صحرا کی صورت میدانی علاقہ تھا جس کے قریب سے نہر فرات گزرتی ہے۔ اس نہر کے گرد باغات اور نخلستان ٹکڑوں کی صورت میں تھے تاہم کربلا کا وہ علاقہ جہاں خیمہ گاہ حسینی تھا، دھوپ میں تپتا ایک میدان تھا جہاں حق و باطل کی جنگ ہوئی اور بالآخر شکست یزیدی فوج کا مقدر بنی۔
کربلا کے نام سے اتنی تمہید باندھنا یوں بھی ضروری ہے کیونکہ سن 61 ہجری والے کربلا کا نقشہ ہی اور تھا۔ عزاداری امام حسین میں کربلا کے حوالے سے جن روایات کو دہرایا جاتا ہے آج کا کربلا اس سے قطعاً مختلف ہے۔
وقت گزر رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کربلا بھی بدل رہا ہے۔ کربلا شہر عراق میں زیارت و سیاحت کا مرکز ہے۔ صدام حسین کی حکومت کے خاتمے، امریکی فوج کی واپسی اور شدت پسند تنظیم داعش کے بڑی حد تک خاتمے کے بعد اب زائرین جوق در جوق عراق کا رخ کر رہے ہیں بلکہ اب روز بروز زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
زائرین کی بڑھتی تعداد کے قیام کے لیے کربلا و نجف کے شہروں میں اب بلند عمارتیں بن رہی ہیں۔ یہاں تھری سٹار ہوٹل شاندار عمارات میں بین الاقوامی سہولیات دے رہے ہیں۔ جہاں پہلے ایک یا دو منزلہ مسافر خانے ہوا کرتے تھے وہاں اب جدید ہوٹل آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔
اب تک کربلا میں بازار اور دکانوں کی پرانی شکل موجود ہے مگر آہستہ آہستہ شاپنگ مال تعمیر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہاں صرف جائے نماز، تسبیح اور کربلا کی خاک شفا ہی نہیں ملتی بلکہ جیولری، میک اپ، پرفیوم، موبائل فون، فیشن ایبل حجاب اور کپڑے سب کچھ یہاں فروخت ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے عالمی ریسٹورانٹ برینڈ تو یہاں نہیں مگر پیزا، برگر، شاشلک اور بمبئی بریانی یہاں سب کچھ ملتا ہے۔
کربلا میں ہوٹل انڈسٹری تو زائرین کی بڑھتی تعداد کے اعتبار سے بڑھ رہی ہے ساتھ ہی اب حرم امام حسین علیہ السلام اور حرم حضرت عباس علیہ السلام کی توسیع بھی کی جا رہی ہے۔
اس بار عاشورہ محرم اور چہلم امام حسین کے مواقع پر کربلا جانے والوں کو جگہ جگہ ایسے نوٹس بورڈز نظر آئیں گے جن میں تعمیراتی کام جاری ہونے کے باعث زائرین سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔
اس وقت کربلا میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام چل رہا ہے۔ تلہ زینبیہ وہ بلند مقام جہاں کھڑے ہوکر امام حسین کی بہن بی بی زینب نے اپنے بھائی کو پکارا تھا، اس وقت نئے سرے سے تعمیر ہو رہا ہے۔ صحن عقیلہ، صحن امام حسین، شبستان امام حسین، مقام بی بی زینب، لائبریری، دارالحرب، مہمان خانے اور حرم امام حسین کی جانب جانے والے زیر زمین نئے راستوں کی تعمیر اس پراجیکٹ کے تحت ہو رہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ کربلا اک نئے نقشے کے ساتھ ابھر رہا ہے۔
حرم کے مختلف مقامات پر کسی جدید الیکٹرانک سیڑھیاں اور لفٹس لگائی جاچکی ہیں جبکہ زیر زمین بننے والی سرنگ بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کربلا میں اتنے بڑے پیمانے پر ایک ساتھ کئی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد دیکھ کر میں حیران تھی کہ ابھی بس چند ہفتے بعد محرم الحرام آنے کو ہے، کربلا کی انتظامیہ ترقیاتی کاموں کے ساتھ زائرین کے اتنے بڑے اجتماع کو کیسے سنبھالے گی؟ روضۂ امام حسین میں عطیات و مالیات کے شعبے سے وابستہ سید علی موسوی نے بڑی تفصیل سے اس پراجیکٹ کے حوالے سے میرے ہر ایک سوال کا جواب دیا۔ میں انگریزی اردو اور عربی کے باہم ملاپ سے کسی نئی زبان میں سوال در سوال کر رہی تھی، علی موسوی نے بتایا کہ جتنے بھی غیرملکی و ملکی انجینئرز اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں انہیں پہلے چہلم امام حسین پر آنے والا رش دکھایا گیا۔ اس کے بعد حرم میں توسیع کے منصوبے کو ڈیرائن کیا گیا ہے اتنے مجمعے کے لیے نئی تعمیرات کرنا آسان نہیں خاص طور پر اس وقت جبکہ تعمیراتی کام کے مقام پر زائرین بھی مسلسل موجود رہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے حرم میں چار نئے سرداب یعنی بیسمنٹ فلور تقریباً بن چکے ہیں جن پر اب صرف تزئین و آرائش کا کام باقی ہے۔ ان میں سرداب راس الشریف، سرداب باب القبلہ، سرداب الجنتہ اور سرداب شہداء شامل ہیں، یعنی اب پہلے سے چار گناہ زیادہ زائرین بھی حرم کے اندر آسکتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سرداب باب القبلہ کی تعمیر کا خرچہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک مخیر صاحب کی جانب سے دیا گیا ہے۔
کربلا میں روضۂ امام حسین اور روضۂ حضرت عباس کی توسیع اور تزئین و آرائش کے لیے جہاں دنیا بھر سے لوگ دل کھول کر نذرانے دیتے ہیں وہیں پاکستانی بھی کم نہیں۔ روضہ کے شعبہ مالیات کے مطابق پاکستان میں کراچی، فیصل آباد اور لاہور سے مخیر حضرات کی ایک بڑی تعداد نذرانے دینے میں نمایاں ہیں۔
ایک پاکستانی جو کہ سپین میں کاروبار کرتے ہیں کی جانب سے پورے حرم حضرت عباس کے لیے نئے فانوس اور ہر طرح کی جدید لائٹنگ ہدیہ کی گئی ہے جو کہ خاص طور پر سپین سے لائی گئی ہیں۔
کربلا کے اسکائی لائن میں اب بلند و بالا عمارتیں نمایاں ہیں، ایسے میں حرم امام حسین کے موجودہ گنبد کا سائز قدرے چھوٹا لگنے لگا ہے جسے اب بڑا کیا جا رہا ہے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر حرم کے نئے گنبد کے لیے مالی تعاون کر رہے ہیں۔ اس وقت سونے کی اینٹوں سے بنا جو سنہری گنبد موجود ہے وہ تقریباً 1000 ٹن وزنی ہے مگر اب نیا گنبد سائز میں تین گنا بڑا بن رہا ہے جس کا وزن گھٹ کر تقریباً 190 ٹن ہوگا۔ اس نئے گنبد میں لوہے کے سانچے اور فائبر گلاس کا استعمال کیا جا رہا ہے، تاہم گنبد پر لگے خالص سونے کی مقدار بڑے سائز کی وجہ سے بڑھ جائے گی۔
ممبئی اور کراچی کی بوہری برادری بھی توسیع حرم کے منصوبے میں خوب تعاون کر رہی ہے، جبکہ یورپی ممالک، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم امام حسین کے چاہنے والے بھی دل کھول کر خدمت میں اپنی مال و دولت ڈھیر کر دیتے ہیں۔
یہ سب وہ تعمیراتی کام ہیں جن کا مقصد سجاوٹ نہیں بلکہ ضرورت ہے تاہم اچھی بات یہ بھی ہے کہ کربلا معلیٰ میں جمع ہونے والے فنڈز صرف تعمیر نہیں بلکہ تعلیم، صحت، فقراء کی مالی امداد اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
کربلا کا نقشہ شاید بدل جائے، شاید اب سے کچھ سال بعد کربلا مزید جدت کے ساتھ میٹروپولیٹن بن جائے شاید کیا بلکہ یقیناً ایسا ہی ہو رہا ہے مگر اس شہر کی ہر سرگرمی، ترقی اور رونق کا محور و مرکز امام حسین، ان کے بھائی حضرت عباس اور بہتر شہیدان کربلا کے روضے رہیں گے، اس زمین کی تعمیر بدل رہی ہے مگر نواسہ رسول کے خون سے سرخ تاریخ وہی رہے گی۔