کالاباغ: جہاں سائیکل رکشہ چلانے والے صرف تین افراد بچے

ضلع میانوالی کے شہر کالا باغ میں سائیکل رکشہ چلانے کا کام آج بھی جاری ہے مگر اسے چلانے والے اب صرف تین افراد رہ گئے ہیں، جو عمر رسیدہ ہیں۔

صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے شہر کالاباغ میں قدیم سواری سائیکل رکشہ چلانے والے اب صرف تین افراد بچے ہیں۔

نصف صدی قبل جب اس شہر میں موٹر سائیکل رکشہ نہیں پہنچا تھا تو لوگ قریبی علاقوں میں آمدورفت کے لیے سائیکل رکشہ پر سواری کیا کرتے تھے۔

کالاباغ میں تجارتی سامان کی ترسیل بھی بازاروں میں اسی سائیکل رکشہ کے ذریعے ہی کی جاتی تھی۔

بعدازاں سوزوکی پک اپ، ڈاٹسن اور دیگر گاڑیوں کے آجانے سے بھی سائیکل رکشہ چلانے والوں کے روزگار پر اتنا اثر نہیں پڑا اور قریبی علاقوں اور اندرون شہر کی گلیوں میں گاڑیوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے سائیکل رکشہ چلانے والے اپنا روزگار چلاتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اب چین کے تیار کردہ موٹر سائیکل رکشہ نے کالاباغ میں سائیکل رکشے کا دور ختم کر کے رکھ دیا ہے اور اب کالاباغ میں یہ تاریخی سواری چلانے والے صرف تین ہی لوگ بچے ہیں، جو اب سواریاں بھی اٹھاتے ہیں اور لوڈنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔

سائیکل رکشہ چلانے والے 60 سالہ بزرگ عبدالرشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں گذشتہ 30 سال سے رکشہ چلا رہا ہوں اور دن بھر میں پانچ گھنٹے رکشہ چلاتا ہوں۔ میں فجر کے وقت اٹھتا ہوں، اپنا سائیکل رکشہ نکالتا ہوں اور منڈی سے سبزی لوڈ کر کے اپنی منزل مقصود پر پہنچاتا ہوں۔‘

ان کے مطابق بڑھاپے کی وجہ سے اب رکشہ چلانا مشکل ہے مگر جیسے تیسے کر کے روزی کما لیتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عبدالرشید نے بتایا: ’میں بھی موٹر سائیکل رکشہ خرید لیتا مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ انجن والا موٹر سائیکل رکشہ خرید سکوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اب میری ٹانگیں اور جسم درد کرتا ہے کیوں کہ میری اب عمر نہیں ہے کہ میں سائیکل رکشہ چلاؤں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ایک نیا سائیکل رکشہ خریدنے یا تیار کروانے میں 20 ہزار روپے کا خرچہ آ جاتا ہے، اب تو سواری بھی ہمارے سائیکل رکشہ پر کم بیٹھتی ہے کیوں کہ اب تیز رفتار موٹر سائیکل رکشہ مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا