بلوچستان کے قدرتی حسن اور ثقافتی رنگوں کو اپنی تصاویر میں اجاگر کرنے والے فوٹوگرافر رحیم بخش کھیتران اپنے شاہکاروں کے ذریعے امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’میں اپنی تصویروں میں بلوچستان کے لوگ، پہاڑ، اور ثقافت سمیت ہر طرح کی خوبصورتی دکھا کر یہاں سے متعلق لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔‘
بلوچستان کے ضلع بارکھان سے تعلق رکھنے والے رحیم بخش کھیتران ہیں تو شوقیہ فوٹوگرافر ان کی تصویروں کی پہلی عالمی سطح کی نمائش فرانس کے دارالحکومت کے گلیکسی آرٹ پیرس میں منعقد ہوئی۔
نمائش میں ان کی دو تصاویر رحیم بخش کی دو تصاویر رکھی گئیں، جن میں ایک پورٹریٹ اور ایک گوادر کے ساحل پر کھڑے رکشے کی ہے، جبکہ 30 دوسری تصاویر گلیکسی آرٹ کی ویب سائٹ کی زینت بنائی گئیں۔
رحیم بخش کا کہنا تھا: ’میں نے اپنی تصویروں کی نمائش کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ اکثر تصویریں میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک دوست نے کچھ تصاویر گلیکسی آرٹ کو بھیج دیں، جو مختلف علاقوں کے فن کاروں کی پذیرائی کی غرض سے ایک نمائش کا اہتمام کیا۔
’میری تصاویر فطرت کے زیادہ قریب ہونے کے باعث انہیں زیادہ پسند آئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پہاڑ، صحرا، اور ہر علاقے میں الگ الگ خدو خال والے لوگ موجود ہیں، جبکہ گوادر کے ساحل کے علاوہ صحرا کی خوبصورتی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
رحیم بخش اپنے کام کے سلسلے میں بلوچستان کے مختلف حصوں کا سفر کرتے رہے ہیں، اور فوٹوگرافی کا شوق ہونے کے باعث انہوں نے ڈھیروں مناظر اور چہروں کو کیمرے کی آنک میں محفوظ کر لیا۔
رحیم بخش نے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے انتھروپولوجی کی تعلیم حاصل کی ہے، جبکہ ترکی سے انسانی جغرافیے پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
نمائش میں رکھی تصاویر
گلیکسی آرٹ پیرس کی نمائش میں رحیم بخش کی دو تصایر رکھی گئیں، جن میں سے ایک میں انہوں نے پورٹریٹ کی شکل میں ایک بوڑھے شخص کو دکھایا ہے۔
رحیم بخش نے اس تصویر کے متعلق بتایا: ’بلوچستان کے ضلع کوہلو میں بلوچی زبان کے بڑے شاعر مست توکلی کے مزار پر یہ بوڑھا شخص لنگر میں کھانا بناتا ہے، اور اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ بوڑھے شخص کی پورٹریٹ کو انہوں نے ’جتنی زندگی میں نے گزاری وہ میری طاقت بن گئی‘ کا نام دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری تصویر میں، جس کا ٹائٹل ہے ’کسی کی مکمل دولت ‘ گوادر کے ساحل پر کھڑا ایک رکشہ دکھایا گیا ہے۔
’دن بھر کام کے بعد رکشہ ڈرائیور تھک گیا اور ساحل سمندر پر جا کر اس نے اپنا رکشہ کھڑا کر دیا، جو بہت اچھا لگا اور میں نے اس کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیا۔‘
نمائش کے لیے تصاویر کے انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے رحیم بخش نے بتایا کہ آرٹ گیلری والوں نے باریک بینی سے ان کے شاہکاروں کا جائزہ لیا، اور ان میں کئی چیزیں درست بھی کروائیں۔
’انہوں نے ہر تصویر کے حوالے سے مجھ سے استفسار بھی کیا کہ اس کے بنانےکا مقصد اور سوچ کیا تھیں۔ بہت ساری تصاویر میں سے چند ایک کو نمائش کے لیے منتخب کرنا بھی مشکل عمل ہے۔‘
انہوں نے دعوی کیا کہ پیرس کی آرٹ گیلری نے ان کی تصاویر کو فنکارانہ فوٹو گرافی قرار دیا ہے۔
پاکستانی فوٹوگرافر
رحیم بخش کے خیال میں پاکستانی فوٹوگرافر یا فنکاروں کے کام کی عالمی سطح پر نمائش ہونا مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی نمائشوں میں جگہ بنانے کے لیے فوٹوگرافرز کو بیرونی دنیا میں لوگوں سے رابطہ کرنے کے علاوہ اچھے کام کرنے والوں کو سوشل میڈیا پر فالو کرنا ہو گا۔
’ہم اپنی چیزیں باہر کی دنیا کو بھیجیں گے تو ان کی سوچ ہمارے متعلق تبدیل ہو گی، لیکن اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا کون سا آرٹ بیرون ملک کسی کو متاثر کرسکتا ہے۔‘