زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سعودی عرب سے لوگ فلمیں دیکھنے کے لیے دبئی جایا کرتے تھے، مگر اب سعودی عرب کے شہر جدہ میں بحیرۂ احمر فلمی میلہ بپا کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسے ہوا، اس طویل سفر پہ جانے سے پہلے آپ کو ایک کہانی سے گزرنا ہو گا۔
ابوالحسن کہہ رہا تھا: ’شام کے وقت صین کلاں کے مسلمان تاجر مجھے ایک چوبی مکان میں لے گئے جس کی دیواروں پر تصاویر بنی ہوئی تھیں اور جہاں بہت سے لوگ رہتے تھے۔‘
(ابوالحسن چین کے تھیئٹر کا احوال سنا رہا ہے اب سے کوئی آٹھ ساڑھے آٹھ صدیاں پہلے)
’اس مکان کا احوال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ایک ہی وسیع و عریض کمرہ تھا، جس میں الماریوں جیسے کابک اوپر تلے قطار اندر قطار نصب تھے۔ (تماشائیوں کے بیٹھنے کی جگہیں)
’ان کابکوں میں لوگ بیٹھے کھا پی رہے تھے۔ کچھ لوگ فرش اور برآمدے پر بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ برآمدے میں بیٹھے لوگ طنبورے اور بربط بجا رہے تھے لیکن ان میں پندرہ یا بیس ایسے بھی تھے جنہوں نے عنابی رنگ کے نقاب پہن رکھے تھے اور وہ دعائیں پڑھ رہے تھے یا گا رہے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔
’یہ نقاب پوش قیدی بن جاتے تھے لیکن کسی کو زندان نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھڑ سواری کرتے تھے لیکن گھوڑے نظر نہیں آتے تھے۔ وہ جنگیں لڑتے تھے لیکن ان کی تلواریں بانس کی تھیں۔ وہ مرتے تھے لیکن پھر اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔‘
(یہ تھیئٹر اداکاروں کے بارے میں ایک سیاح اپنے دیسی یار دوستوں کو احوال سنا رہا ہے۔)
’پاگل کی حرکتیں عقل مند کے تصور سے ماورا ہوتی ہیں،‘ فراج نے کہا۔
’وہ پاگل نہیں تھے،‘ ابوالحسن نے کہا۔ ’ایک تاجر نے مجھے بتایا کہ وہ ایک کہانی پیش کر رہے تھے۔‘
بالی ووڈ سٹار شاہ رخ خان نے عمرہ کی سعادت حاصل کرلی pic.twitter.com/tBqoMzVRPL
— Independent Urdu (@indyurdu) December 2, 2022
کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی سمجھنا چاہتا تھا۔ (سننے والوں کا دماغ تصور نہیں کر پا رہا تھا۔)
ابوالحسن نے کسی قدر بدحواسی کے عالم میں اپنی داستان کی بےڈھنگی سی توجیہہ پیش کرنا شروع کر دی۔ اس نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا، ’تصور کریں کہ کوئی شخص کہانی سنانے کی بجائے اسے دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر اصحاب کہف کا قصہ لے لیں۔ ہم انہیں غار میں جاتا دیکھتے ہیں، ہم انہیں عبادت کرتے اور سوتے دیکھتے ہیں، ہم انہیں کھلی آنکھوں سوتے دیکھتے ہیں، انہیں بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ 309 سال کے بعد جاگ جاتے ہیں۔
’ہم انہیں ایک دکاندار کو پرانا سکہ دیتے دیکھتے ہیں، اور ہم انہیں جنت میں نیند سے بیدار ہوتے دیکھتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے کتے کے ساتھ بیدار ہوتے دیکھتے ہیں۔ اس شام اس برآمدے پر وہ کچھ ایسی ہی چیز دکھا رہے تھے۔‘
(یعنی سٹیج کے لیے راوی نے اصحاب کہف کی مثال دی۔)
’کیا وہ لوگ بولتے بھی تھے؟‘ فراج نے سوال کیا۔ (کیا معصوم سوال ہے!)
’بالکل بولتے تھے،‘ ابوالحسن نے کہا۔ وہ اب ایک ایسے عمل کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گیا تھا جو اسے بمشکل یاد تھا اور جس نے اس وقت اسے خاصا جز بز بھی کیا تھا۔ ’وہ بولتے تھے، گاتے تھے اور لمبی لمبی اکتا دینے والی تقریریں کرتے تھے۔‘
’اس صورت میں میں لوگوں کی ضرورت نہیں تھی،‘ فراج نے کہا۔ ’چاہے کتنا ہی پیچیدہ واقعہ کیوں نہ ہو، اسے بتانے کے لیے ایک ہی شخص کافی ہے۔‘ سب نے اس فیصلے پر سر ہلایا اور عربی زبان کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔
یہ قصہ اندلسی ابن رشد کے بارے میں ارجنٹینا کے بورخیس نے لکھا اور ہمارے ظفر سید نے اسے اردو میں ترجمہ کیا۔ بریکٹ میں جو ہے وہ فقیر نے قلم لگایا تاکہ نوجوان تسلی سے پڑھ سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تھیئٹر عرب میں بہت عرصہ اجنبی رہا۔ جیسے ہمارے یہاں ہندوستان میں داستان گوئی ہوا کرتی تھی عین ویسے ہی ان کی طرف شاعر ہوتے تھے، فلسفیانہ باتیں ہوتی تھیں، قصے کہانیاں ہوا کرتے، داستانیں تھیں لیکن سب کو سنانے والا ایک فرد واحد۔
سنیما لیکن سعودی عرب اور ہندوستان میں آس پاس ہی آیا اور وہ بہت لیٹ نہیں تھا۔ 1895 میں دنیا نے پہلی حرکت کرتی ہوئی تصویر دیکھی جسے ہم فلم کہتے ہیں اور 1930 کی دہائی میں سنیما سعودی عرب سمیت ہندوستان میں بھی جگہ بنا چکا تھا۔
انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد یہاں سنیما بھی ساتھ ہی بانٹے گئے لیکن فلمیں برابر بنتی اور دیکھی جاتی رہیں۔
جس دور میں ہم بھٹو دور سے مارشل لا کی طرف شفٹ ہوئے اور ہمارے ڈراموں، فلموں نے سخت ترین پالیسیوں کا منہ دیکھا عین اسی دہائی میں سعودی عرب کا جو سینیما تھا اسے بالکل خاتمے کا سامنا کرنا پڑا۔
1979 میں خانہ کعبہ پر حملے کے بعد سعودی عرب کی مجموعی پالیسی تبدیل ہوئی جس کے نتیجے میں 1980 کے بعد ملک بھر میں کوئی سینیما نہیں تھا۔ مکمل پابندی۔
عرب نیوز سعودی عرب کا انگریزی اخبار ہے۔ اس میں ایک فلم ڈائریکٹر کا انٹرویو ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات صرف ایک فلم دیکھنے کے لیے انہیں دبئی جانا پڑتا تھا۔
2017 میں شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی ثقافتی پالیسی کو باقی دنیا سے مربوط کرتے ہوئے سینیما پر سے 35 سال پرانی پابندی ختم کر دی۔
پابندی ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں تھا۔ عوام کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لیے 2030 تک 2600 مووی سکرین پورے سعودی عرب میں بنائی جائیں گی۔ یہ شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا صرف ایک حصہ تھا۔
اس وقت یہاں پچاس سے زائد ملٹی پلیکس سینیما بن چکے ہیں جن میں 430 فلم سکرین کی گنجائش ہے جب کہ مزید پر تیزی سے کام جاری ہے۔
2021 میں سعودی سنیما کی مارکیٹ 238 ملین ڈالر تھی۔ تب جو فلم فیسٹیول سعودی عرب نے منعقد کروایا اس میں تیس ہزار شہریوں نے 67 ممالک کی 138 فلمیں دیکھیں جن میں 27 سعودی فلمیں تھیں۔
2022 کا بحیرۂ احمر فلم فیسٹیول شروع ہو چکا ہے۔
اس سال یہاں 61 ملکوں کی 131 فلمیں دکھائی جائیں گی جو 41 زبانوں کی نمائندگی کریں گی۔
تو شاہ رخ خان، اے آر رحمان، کاجول، پریانکا چوپڑا، شبانہ اعظمی سمیت لبنان، مصر، افریقہ بلکہ پوری دنیا سے کئی بڑے مغربی فنکار بھی اس دس روزہ فلمی میلے کے مہمان ہیں اور ابھی جدہ میں ہیں۔ یہ سب ایسے ممکن ہوا سعودی عرب میں!
ایک خواب دیکھا گیا جس کا نام وژن 2030 تھا۔ اس خواب کی تعبیر پہ کام شروع ہوا۔ سرے سے بالکل نئے شہر بسائے جانے لگے۔ معیشت کو اس قابل بنایا جانے لگا کہ تیل پر سے اس کا بھروسہ ختم ہو اور آزادانہ مارکیٹ میں سر اٹھا سکے۔ اس پورے خواب کا ایک حصہ بحیرۂ احمر فلمی میلے کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔