کابل میں نصب گلوب پر افغانستان بڑا اور پاکستان چھوٹا کیوں؟

یہاں سے گزرنے والے راہگیر اس گلوب پر افغانستان کے سرکاری نقشوں سے کہیں زیادہ بڑا نقشہ پینٹ ہوا دیکھ سکتے ہیں جس کو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کے نقشوں کو ہڑپ کر کے بڑا دکھایا گیا ہے۔

افغانستان کے نقشے نے پاکستان اور ایران کا خاصا حصہ دبا لیا ہے (اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مرکزی چوراہے پر شہر کی ایک نئی پہچان کی تعمیر کی گئی ہے جہاں سے پوری دنیا کے نقشے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

دراصل کابل کے میونسپل حکام نے دہان باغ سکوائر میں ہاتھ سے پینٹ کیے گئے ایک بڑے گلوب کی نقاب کشائی کی ہے جس میں افغانستان کے نقشے کو بڑا کر کے دکھایا گیا ہے اور یہ جاذب نظر لینڈ مارک لوگوں کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔

ایک مقامی شہری حافظ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ ایک تخلیقی نشان ہے۔ اس سے قبل کہ یہ چوراہا ایک غیر پرکشش جگہ تھی لیکن اب یہ نقشہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم بھی دنیا میں موجود ہیں۔‘

یہ گلوب جس کا قطر تقریباً آٹھ میٹر (25 فٹ) ہے، ایک میکانزم کے تحت ایک منٹ میں پانچ بار چکر مکمل کرے گا جو اپنے ارد گرد چلنے والی کابل کی ٹریفک سے بھی تیز ہے۔

یہاں سے گزرنے والے راہگیر اس گلوب پر افغانستان کے سرکاری نقشوں سے کہیں زیادہ بڑا نقشہ پینٹ ہوا دیکھ سکتے ہیں جس کو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کے نقشوں کو ہڑپ کر کے بڑا دکھایا گیا ہے۔

لیکن اس گلوب کی تعمیر میں شامل چیف انجینیئر اور آرٹسٹ جو اس پر موجود افغانستان کے نقشے کے حجم کے فرق کے بارے میں پہلے سے گردش کرنے والے لطیفوں کے عادی ہو چکے ہیں، نے کہا کہ ایسا صرف ملک کے نقشے کو ’واضح‘ طور پر دکھانے کے لیے کیا گیا ہے۔

چیف انجینیئر عصمت اللہ حبیبی نے کہا نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نے اسے (افغانستان کے نقشے کو) زوم کیا ہے تاکہ لوگ اپنے ملک کو اس گلوب پر پہچان سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ دنیا بھی اسے تسلیم کر لے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آرٹسٹ عابد وردک نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گلوب کو پینٹ کرنے میں چار دن لگے اور یہ کام انہوں نے ایک بانس کی سیڑھی کے ذریعے مکمل طور پر ہاتھ سے کرتے ہوئے انجام دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے ایک نقشے سے مدد لی حالانکہ یہ انگریزی میں تھا۔‘

اس گلوب میں افغانستان کے نقشے پر طالبان کا جھنڈا پینٹ کیا گیا ہے جس پر کلمہ تحریر ہے تاہم ہر کوئی اس علامت سے خوش نہیں ہے۔

ایک خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا: ’جب میں نے افغانستان کے نقشے پر (طالبان کا پرچم) دیکھا تو میں افسردہ ہو گئی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’معاشرے میں میری موجودگی کو محدود کر دیا گیا ہے، میری آزادی چھین لی گئی ہے۔ مجھے ماضی کی (عوامی حکومت) کی یاد آتی ہے۔‘

گذشتہ سال طالبان کی واپسی کے بعد سے خواتین کے حقوق کو تیزی سے سلب کیا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ طالبان نے 2001 کے اپنے پہلے دور اقتدار میں سخت طرز حکمرانی کے برعکس اس بار دنیا سے نرم رویے کا وعدہ کیا تھا۔

زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمتیں کھو چکی ہیں  یا ان کو گھروں میں رہنے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں جبکہ خواتین کو بھی کسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت ان کے لیے برقع یا حجاب لینا ضروری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا