جب سے جدہ آنا ہوا ہے روٹین یہی بنائی کہ ہر سیشن کے لیے وقت سے بہت پہلے پہنچ جاتا اور سکون سے آگے بیٹھ جاتا۔
جدہ ریڈ سی فیسٹیول کے دوران میڈیا کارڈ کی وجہ سے یہ رعایت بلکہ بہت سے فوائد پہلے دن سے حاصل رہے، اندر کا عام آدمی لیکن تڑپ رہا تھا کہ یار کم از کم ایک سیشن میں لیٹ ہوا جائے اور باہر کے رش سے گزر کے بندہ اندر گھسے۔
اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فقیر ہال کی جمی جمائی سیٹ سے اٹھ کے بالکل داخلی دروازے کے باہر پہنچ گیا اور ریتک روشن کا انتظار شروع کر دیا۔
عوام میں زیادہ تر انڈین اور پاکستانی لوگوں سمیت مقامی عرب تھے اور یہ لمبی بے شمار والی لائن!
کوئی بیس منٹ انتظار کے بعد ریتک طلوع ہوئے، سورج کی روشنی میں لگا کہ پلاسٹک سرجری نما کوئی چکر ہے لیکن ہال میں جا کے سب ٹھیک تھا۔ شاید میک اپ ہو گا۔
واپس باہر آئیے، کہانی ابھی باقی ہے۔ ریتک داخل ہوئے اور لوگوں نے سیلفی بنانے کے لیے بس چڑھائی نہیں کی ان پر، 200 قدم کا راستہ ہو گا جس سے گزر کے ان کو جانا تھا اور 100 ویں قدم سے آگے بڑھے تو انسانوں کو روکنے والی ریلنگ گر چکی تھی۔
آس پاس باڈی گارڈ چوکنے تھے لیکن پریشان کوئی نہیں تھا، روٹین ہے، چلتا ہے۔
ریتک ایک منزل مزید اوپر چلے گئے اور ایسکیلیٹر سے جاتے ہوئے بہت ساری مسکراہٹوں سمیت مداحوں کی طرف ہاتھ ہلاتے گئے۔
اب اندر داخل ہونے کا معاملہ تھا۔ لائن تھی کوئی ستر اسی بندے کی۔ ایک کونا خالی تھا جہاں دس بارہ لوگ گھسنے کے چکر میں تھے لیکن ایک لحیم شحیم عرب نوجوان کو گارڈز نے روکا ہوا تھا اور پیچھے باقی سب رکے ہوئے تھے۔ ان بھائی کے پاس ٹکٹ نہیں تھا۔
دس منٹ وہ الجھتے رہے، گارڈز تحمل سے جگہ روکے کھڑے رہے لیکن اتنی دیر میں ہمارے پیچھے مجھ جیسے میڈیا والوں کا ہجوم بن گیا، جو کسی وجہ سے یا جان بوجھ کے باہر رہ گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت چھان پھٹک کے بعد میڈیا والوں کا داخلہ شروع ہوا۔ ٹکٹ سب کے پاس تھے لیکن اس کے باوجود مزید پانچ منٹ کم از کم لگے اور معاملہ ختم ہوا۔
اب ہال میں داخل ہوئے تو نفری مکمل ۔۔۔ پھر چانس پہ ڈانس کیا اور انڈپینڈنٹ اردو کے وزیٹنگ کارڈ کا عَلم اٹھائے بالکل پہلی صف میں پہنچ گیا۔ مہربان منتظم خاتون نے سوال کیا تو انہیں بتایا کہ بھئی یہ ادارہ ہے، یہ ملازم ہے، رپورٹ بنانی ہو گی اور چند ویڈیوز بھی، تو پیچھے ناممکن ہے۔ انہوں نے اگلی صف میں پانچویں نمبر پر سیٹ دے دی۔
مجھ سے ایک سیٹ چھوڑ کر ایک فرانسیسی لڑکی بیٹھی ہوئی تھیں۔ پانچ منٹ بعد انگریزی میں انہوں نے کہا کہ ابھی میری دوست نہیں آ رہیں تو یہ ریزرو سیٹ پر آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ میں بیٹھ گیا۔ اب کیمرہ لگانے کے لیے سامنے کا سین صاف تھا۔
ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے پوچھا کہ ’کس ملک سے ہیں؟‘ عرض کیا: ’پاکستان۔‘ اردو میں بولیں: ’میں لاہور سے ہوں۔‘
واللہ جو ہم وطنی اس وقت خوش کن لگی ہے، کیا زندگی میں کبھی احساس ہوا ہو گا! بول دیا کہ بھئی آپ فرانسیسی ورانسیسی لگ رہی تھیں، پھر آواز بھی تھوڑی ہسکی قسم کی تھی تو ہنس دیں اور بتایا کہ وہ دس برس سے یہیں ہیں اور سعودی ایئرلائن میں کیبن کریو ہیں۔ ریتک کے ساتھ میری واحد تصویر بنانے کی سعادت بھی خدا نے ان کے نصیب میں لکھی تھی۔
اتنی دیر میں ریتک روشن آ گئے۔ فل تیکھے لگ رہے تھے۔ کالی پتلون، کرسپ سفید ٹی شرٹ، سرمئی کوٹ، بازوؤں پر کوٹ تنگ، پھڑکتے مچلتے ڈولے، اف! برابر ہیرو والا لک۔ ہیرو مکمل ہیروگیری میں تھے!
48 سال کی عمر میں کوئی اتنا فٹ کیسے رہ سکتا ہے؟ ایسے کہ بھیا وہ ریتک روشن ہو اور فلم اس کا روزگار ہو اور پرسنل ٹرینر چوبیس گھنٹے اس کے پاس ہو!
میزبان خاتون نے فلم ’کہو نا پیار ہے‘ کے حوالے سے پوچھنا تھا۔ بولیں: ’کاہو نہ پی آر ہائے، کیا میرا تلفظ ٹھیک ہے؟‘ تو ریتک بولے کہ ’یہ اب زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔ کاہو نااا پی آررر ہائےےے ۔۔۔ اس میں زیادہ فیلنگ آ رہی ہے پیار والی‘ تو بس ہال میں قہقہے تھے اور میزبان رایا اپنا سوال مکمل کرنے کے چکروں میں تھیں۔
سوال یہ تھا کہ ’جب اس فلم کو اتنی زیادہ کامیابی ملی تو آپ نے اسے ڈیل کیسے کیا، دماغ پر نہیں چڑھی؟‘
ریتک بولے کہ ’بے شک کامیابی تو میری محنت سے بھی دگنی تھی لیکن میری تربیت اور اس سے بھی زیادہ میرے دوستوں نے مجھے ہواؤں میں بالکل نہیں اڑنے دیا۔ میں ان کو جوشیلے انداز میں روز بتاتا تھا کہ یار یہ ہوا، وہ ہوا، وہ میرے سر پر ایک چپت لگاتے اور بولتے: ’ابے ہٹ! اوقات میں رہ ۔۔۔ تو بس میں خوش قسمت تھا کہ میرے پیر زمین پر ہی ٹکے رہے۔‘
ڈانس کا ذکر آیا تو سبھی چاہتے تھے کہ ریتک کچھ سٹیپ وغیرہ دکھائیں لیکن میوزک لگانے کا بندوبست نہیں تھا۔ میزبان نے حاضرین سے درخواست کی کہ بھئی چٹکیاں بجائیں سب ایک ردھم میں، تاکہ ریتک کچھ ہل جل دکھائیں۔ اب ہیرو لوگ چٹکی پر کدھر ناچ سکتے ہیں؟ خیر تھوڑے بہت سٹیپ انہوں نے کیے کہ اس دوران میرے ساتھ بیٹھی نتاشہ فرانسیسی کی دوست عندلیب نے ریتک روشن سے درخواست کر دی کہ ’آپ کیا میرے ساتھ ڈانس کر سکتے ہیں؟‘
دو سیکنڈ سناٹے کے بعد ہاں ہو گئی۔ عندلیب بہت ہی خوش تھیں۔ موبائل لیا، آگے پہنچیں، ریتک سے بولیں کہ ’مائیک مجھے دیجے، اس پر گانا ریڈی ہے، یہ موبائل ہم مائیک کے سامنے رکھیں گے اور اس طرح گانے کی آواز پورے آڈیٹوریم میں گونجے گی۔‘
ریتک روشن ہنسنے لگے کہ ’آپ تو پوری تیاری کر کے آئی ہیں۔‘ بس پھر انہوں نے گانا چلایا، ریتک کے ساتھ ان کے بہت مشہور ڈانس سٹیپ دہرائے اور بعد ازاں ان کو گلے لگا کے ریتک نے رخصت کیا۔ ان کا آنا لیکن وصول ہو گیا، وہ بہت خوش تھیں اور ہال والے بھی سارے کہ چلو اسی بہانے جامد سیشن میں کوئی حرکت برکت ہوئی، انڈیا پاکستان کے نعرے بھی لگے۔
اب جس کے پاس مائیک جاتا سوال کے لیے، وہ بولتا سوال تو کوئی نہیں بس سیلفی لینی ہے آپ کے ساتھ۔ دو تین لوگوں کے ساتھ سیلفی بنوائی، ایک دو جینوئن سوال بھی آئے اور اس کے بعد ریتک روشن رخصت ہو گئے۔
میری تصویر جو کیمرہ ایڈجسٹ کرتے ہوئے فرانسیسی لڑکی سے کہا تھا کہ بنا لیں، وہ انہی کے پاس تھی۔ ہال شدید ٹھنڈا تھا، ان سے درخواست کی کہ فون پر بھیج دیجے گا اور واللہ کہہ کر بھاگنے کی طرح ہال سے باہر نکلا۔
ڈھونڈ ڈھانڈ کے ایک کافی شاپ دریافت کی، 30 ریال میں گرم سیال اندر انڈیلا ۔۔۔ تھوڑا ٹمپریچر اندر باہر کا برابر ہوا تو واپسی کی سوچنے لگا۔
ہوٹل پہنچا تو وہ تصویر آ چکی تھی۔ واحد ثبوت کہ ہاں میں بھی ریتک روشن کے سیشن میں موجود تھا۔
کیا زمانہ ہے ویسے، منہ کی بات پر اعتبار کم اور کیمرے کے عکس پر زیادہ کیا جاتا ہے۔ جیوندے رؤو!