اکرم صاحب امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ کئی ماہ سے ان کے کنٹینرز بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ڈالرز کی کمی کی وجہ سے ایل سیز کلیئر نہیں ہو رہی ہیں اور نقصان بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے خبر پڑھی کہ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط ملنے کے بعد ایل سیز کھل جائیں گی لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کیوں نہیں دے رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار خود کو آئی ایم ایف کو ڈیل کرنے کا ماہر بتاتے ہیں۔ ’میں ان کے دعوے پر اس وقت یقین لاؤں گا جب وہ عوام کے سامنے پورا سچ بولیں گے، آئی ایم ایف قرض دے گا اور میرا کاروبار پھر سے چلنے لگے گا۔‘
اس حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کی بڑی وجہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق آئی ایم ایف کو تسلی بخش جواب نہ دینا ہے۔
’نویں جائزے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کرنے کا اسحاق ڈار کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ اگر شرائط مکمل ہو گئی ہیں تو پاکستان نے آئی ایم ایف آئی میں ووٹنگ پاور رکھنے والے ممالک سے رابطہ کیوں شروع کر دیا ہے؟
’آئی ایم ایف سے جو معاہدہ 2019 میں کیا گیا تھا وہ اسی پر قائم ہے، لیکن پاکستان معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔ تقریباً 855 ارب روپے کا خسارہ ہے، جو یا تو منی بجٹ سے پورا ہو سکتا ہے یا پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر کے ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق: ’پاکستان کا موقف ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ہدف حاصل نہیں ہو پایا ہے، جس پر آئی ایم ایف نے سیلاب پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات مانگی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا مستقبل کے اہداف پر فرق پڑنا چاہیے۔ موجودہ اہداف کا سیلاب سے تعلق نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان ستمبر 2022کے اہداف حاصل نہیں کر سکا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ادارے کو مطلوبہ نتائج درکار ہیں۔
بقول ڈاکڑع فخ سلیم: ’میں نے 2010 کے سیلاب میں Disaster Need Assessment Report (DNA) تیار کی تھی۔ جس کے بعد اربوں ڈالرز کے فنڈز ملے تھے۔ موجودہ سیلاب میں اس رپورٹ پر زیادہ انحصار نہیں کیا جا رہا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے دس ارب، پھر 20 ارب، پھر 30 ارب اور اب 45 ارب ڈالرز کے نقصان کی بات کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔‘
پاکستان میں ورلڈ بینک کی نمائندہ مریم الطاف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ورلڈ بینک، یو این ڈی پی اور اے ڈی بی کی مدد سےDNA رپورٹ اکتوبر میں مکمل کر لی گئی تھی، لیکن ریکوری اور ری کنسٹرکشن کا کام ابھی جاری ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کے نمائندے پاکستان میں موجود ہیں اور امید ہے کہ وہ رپورٹ بھی جلد تیار ہو جائے گی۔
اس معاملے پر سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے انتہائی سخت رویہ مناسب نہیں ہے۔
’ایسا نہیں ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ پیٹرولیم لیوی سمیت تقریباً 90 فیصد شرائط پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ سیلاب ایک حقیقت ہے اور اس سے ہونے والے نقصان کے تخمینوں میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر قرض روکنا درست نہیں ہے۔‘
حفیظ پاشا کے مطابق: ’قرض میں رکاوٹ کے پیچھے خفیہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پچھلی حکومتوں کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پہلے کام کرو اور پھر قرض ملے گا۔ حفیظ شیخ پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا معاہدہ کر کے آئے لیکن بعد میں مکر گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں تاخیر بلاوجہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈالر ریٹ کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ رضا باقر کے دور میں بینک کا ریٹ ہنڈی حوالے سے زیادہ ہوتا تھا۔ اب ہنڈی کا ریٹ تقریباً 30 روپے زیادہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض ہے، لیکن اس بنیاد پر قرض کی قسط روکنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انتظامی معاملات سخت کرنے کی بجائے پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔‘
ظفر پراچہ نے کہا: ’میرے مطابق ڈالر کی قیمت تقریباً 245 روپے ہے۔ ویسے بھی مارکیٹ میں ڈالر اس سے کم ریٹ پر نہیں مل رہا۔ حکومت کو حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے چاہییں۔‘
جب اس معاملے پر سابق وزیر خزانہ سلیمان شاہ سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے حکومت کو اس کا قصور وار ٹھہرایا۔
سلیمان شاہ کے مطابق: ’پہلے بھی آئی ایم ایف کی بات تاخیر سے مان کر نقصان اٹھایا گیا اور اب بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پرائمری بجٹ خسارے کو پرائمری بجٹ سرپلس میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ یہ حکومت کی نالائقی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ایک طرف سیلاب کے نقصانات بتائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف حکومتی خرچوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ لگژری گاڑیاں اور ڈویلپمنٹ فنڈز پر دل کھول کر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایکسپورٹ سیکٹر اور یوریا کھاد پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں آئی ایم ایف کیسے یقین کرے کہ قرض کی رقم شفاف طریقے سے خرچ ہو گی۔
’اس کے علاوہ پاکستان نے آئی پی پیز کے معاملے کو حل کرنے کے لیے چین کے ساتھ ریولونگ بینک اکاؤنٹس کھولنے کی بھی منظوری دے دی ہے، جس پر آئی ایم ایف کو تحفظات ہیں۔‘
حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان کو اس وقت تک قرض نہیں ملے گا جب تک تقریباً 855 ارب کی آمدن بجٹ میں شامل نہیں کی جاتی اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو بجٹ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔