پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی واپسی کا متفقہ فیصلہ کر لیا گیا ہے اور آئندہ ماہ ان کی پاکستان آمد متوقع ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نواز شریف کی واپسی کے لیے قانونی معاملات درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جیسے ہی قانونی معاملے سلجھ جائیں گے تو میاں نواز شریف واپس پاکستان آ جائیں گے۔‘
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اشتہاری مجرم ہیں اور نیب کی سزاؤں کے خلاف ان کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھیں اور عدم پیشی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے یہ کہہ کر کیس بند کر دیا تھا کہ جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو ایک درخواست دائر کریں گے تو کیس دوبارہ سُنا جائے گا۔
جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی حد تک نیب سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعتیں کیں اور نیب کے ناکافی شواہد پر انہیں بری کر دیا تھا۔
قانونی طور پر اسی کیس میں اب نواز شریف کی ضمانت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے اور انہیں عدالت سے رجوع کرنا ہو گا۔
واپسی پر نواز شریف کو قانونی چیلنجز کیا ہوں گے؟
نواز شریف اگر پاکستان آتے ہیں تو انہیں کون کون سے قانونی چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے سابق جج شاہ خاور کہتے ہیں کہ نواز شریف چونکہ سزا یافتہ ہیں اس لیے انہیں عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا پڑے گا۔
شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ (نواز شریف) ضمانت پر ہوتے تو دوبارہ ضمانت کے لیے رجوع کیا جا سکتا تھا لیکن وہ سزا یافتہ ہیں اور ان کی سزا معطل بھی نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے کی لیے سزا معطل کی تھی لیکن بعد ازاں عدالت نے ان کے وارنٹ نکالے اور اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
’نواز شریف کو جیل بھی جانا پڑے گا کیونکہ بیمار ہونے پر وہ جیل سے ہسپتال منتقل ہوئے اور وہاں سے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ لیکن پنجاب حکومت کو جب بعد ازاں میڈیکل رپورٹس جمع کروائی گئیں تو پنجاب حکومت نے ان کو غیر تسلی بخش قرار دی تھیں اور ہائی کورٹ کو مطلع کیا تھا جس کے بعد انہیں اشتہاری قرار دیا تھا۔
شاہ خاور نے مزید بتایا کہ نواز شریف کی واپسی سے قبل راہداری ضمانت نہیں ہو سکتی۔ ضمانت تب ہوتی ہے جب ٹرائل زیر التوا ہو لیکن یہاں تو ٹرائل مکمل ہے اور اپیلیں بند ہیں۔
’اس لیے پہنچنے پر پہلے وہ گرفتار ہوں گے۔ جیل جانا پڑے گا پھر عدالت اُن کی اپیل سنے گی اور جب عدالت بری کرے گی تو رہا ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے مختلف رائے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز بری ہو چکی ہیں تو نواز شریف کا کیس بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا مریم کا کیس تھا۔
انہوں نے کہا کہ گرفتاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر ضمانت کے لیے رجوع کیا جائے تو عدالت کو فوراً انہیں ضمانت دے دینی چاہیے۔ کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہی کہہ دیا تھا کہ نیب کے کیس میں کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔
’ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اٹارنی جنرل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے، نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ بھی مل چکا ہے، وہ سابق وزیراعظم ہیں اور غلط کیسز میں سزائیں دی گئیں جن کا کوئی ثبوت ہی موجود نہیں ہے۔‘
نواز شریف کو کیا سیاسی چیلنجز ہوں گے؟
نواز شریف کو وطن واپسی پر سیاسی چیلنجز کیا ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ میاں نواز شریف بہت عرصے بعد پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ ان کے اپنے حلقے ہیں اپنے ووٹرز اور چاہنے والے بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا: ’نواز شریف سیاسی قد آور شخصیت ہیں ان کے مد مقابل کوئی نہیں ہے اور یقینی طور پر اس کا پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر ہو گا اور سیاسی استحکام آئے گا۔‘
مسلم لیگ ن کے ناراض ووٹرز کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ میاں نواز شریف کے واپس آنے سے ناراض ووٹرز راضی ہو جائیں گے اور اس کا بھی خوشگوار اثر ہو گا۔
(ایڈیٹنگ: ندا حسین)