پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کے تنازعات کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے ملک میں خصوصی عدالتیں قائم کرنی کی تجویز پیش کی ہے۔
اس تجویز سے متعلق تیار کیے گئے مسودے کے مطابق حکومت سرمایہ کاروں، لائسنس رکھنے والوں، صارفین اورآخری استعمال کنندگان کے میڈیا سے متعلق تنازعات حل کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنا چاہتی ہے۔
تاہم صحافیوں، صحافتی تنظیموں اور اداروں اور میڈیا کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات اور اداروں نے اس تجویز پر تحٖفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا، جس کی بڑی وجہ گذشتہ کچھ عرصے سے حکومت کے میڈیا اداروں خصوصا الیکٹرانک میڈیا سے متعلق بعض اقدامات اور رویہ ہیں۔
اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف ہمیشہ آزاد میڈیا اور آزادی اظہار کے حامی رہے ہیں۔ تاہم اب ان کی حکومت اور وہ بذات خود بھی آزادی اظہار رائے اور صحافت کی آزادی سلب کرنے جیسے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق عہدے دار مظہر عباس نے سوال اٹھایا آخر حکومت پر تنقید کرتے ہی ٹی وی چینل آف ائیر کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور اخبارات کے اشتہارات کیوں بند ہو جاتے ہیں؟
اس سلسلے میں انہوں نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کی نشریات کی بندش یا کیبل پر اس کے نمبرز کی تبدیلی اور روزنامہ ’اب تک‘ کے اشتہارات کے روکے جانے کی مثالیں دیں۔
کچھ عرصہ قبل ملک بھر کے کیبل آپریٹرز نے تین نجی ٹی وی چینلز کی نشریات معطل کردی تھیں، جبکہ گذشتہ ہفتے جیو نیوز کی نشریات بھی ملک کے کئی حصوں میں بند کر یا کیبل نیٹ ورکس پر اس کا نمبر اچانک تبدیل کر دیا گیا تھا۔
حکومت نے کسی سطح پر ٹی وی چینلز کی نشریات کھلوانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا، جس سے تحریک انصاف کی حکومت پر چینلز کو سیاسی مخالفین کی کوریج کی سزا دینے کے الزام کو تقویت ملتی ہے۔
تاہم حکومت اور تحریک انصاف کے عہدے دار میڈیا پر پابندیوں سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے لیے خصوصی عدالتوں کی تجویز سے متعلق مسودہ براڈ کاسٹنگ یا الیکٹرانک میڈیا سیکٹر کے تنازعات کا حل تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے اہم قرار دیتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے الیکٹرانک میڈیا کے لیے خصوصی عدالتوں کی تجویز کا اعلان کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس سلسلے میں صحافیوں اور باقی تمام سٹیک ہولڈرز کے حقوق کو تحفظ دیا جائے گا۔
تاہم صحافیوں کے حقوق اور صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والے اقبال خٹک کہتے ہیں ان خصوصی عدالتوں سے متعلق کسی بھی سٹیک ہولڈر سے مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ ان کو اعتماد میں لیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا نہ صرف صحافی، صحافتی تنظیمیں اور ادارے بلکہ پاکستان کے شہری بھی اس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز ہیں۔
ان کے خیال میں حکومت کو اس سلسلے میں کھلی بحث کروانی چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد خصوصی عدالتوں سے متعلق کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔
اسی طرح، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ایک دہڑے کے صدرافضل بٹ کا کہنا تھا انہوں نے ابھی تک مسودہ نہیں دیکھا اور نہ انہیں ان عدالتوں کے مقاصد یا دوسری تفصیلات کا علم ہے۔ ’ایسے میں ہم اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔‘
افضل بٹ نے یاد دلایا وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے حالیہ دورے میں پاکستانی میڈیا کی آزادی کا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے سوال اٹھایا اگر پاکستانی میڈیا آزاد ہے تو پھر اس قسم کی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟
پی ایف یو جے کے صدر نے بھی نجی ٹی وی چینلز کی نشریات اور اخبارات کے اشتہارات کی ’غیر قانونی بندش‘ کی طرف اشارہ کیا۔
خصوصی عدالتوں سے متعلق مسودے کے مطابق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے متعلق 300 سے زیادہ مقدمات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں زیر التوا ہیں، جن میں سے اکثر کئی سالوں سے چل رہے ہیں۔
بعض مقدمات میں عدالتوں نے پیمرا کا موقف سنے بغیر ہی حکم امتناعی جاری کر دیے، کئی سال گذرجانے کے باعث حکومت کے اربوں روپوں کے محصولات پھنسے ہوئے ہیں۔
اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا حکومت چاہے تو عدالتوں میں مقدمات جلد نمٹائے جا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے لیبر کورٹس کی مثال دیتے ہوئے سوال اٹھایا ان عدالتوں میں ایک ہفتے میں کیس کا فیصلہ کیوں نہیں ہوتا؟
مظہر عباس کا کہنا تھا اگر ایسا نہیں ہو رہا تو قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو ہی اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔
مظہر عباس نے اخباری ملازمین کی تنخواہوں کا فیصلہ کرنے کے لیے بنائے جانے والے ویج بورڈ کی مثال بھی دی جو قانون کے تحت ہر پانچ سال بعد بننا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’ہمیں ہر ویج بورڈ کے لیے تحریک چلانا پڑتی ہے اور آخری ویج بورڈ ساتواں تھا، جسے گذرے دس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن آٹھویں بورڈ کا کوئی ذکر نہیں‘۔
ان کا خیال تھا دراصل حکومت توجہ ہٹانے کے لیے خصوصی عدالتوں کا شوشہ چھوڑ رہی ہے ورنہ اگر حکومت چاہے تو ملک میں موجود نظام اور عدالتی فورمز کے ذریعے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
ٹی وی چینلز مالکان کی نمائندہ تنظیم پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے بھی جمعے کو جاری ہونے والے بیان میں کہا ملک میں ذرائع ابلاغ سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے لیے قوانین، عدالتیں اور پیمرا جیسے ادارے پہلے سے موجود ہیں۔
پی بی اے نے وفاقی حکومت کو الیکٹرانک میڈیا کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے جیسی ’بری تجویز‘ سے جلد از جلد دستبردار ہونے کا مشورہ دیا۔
مسودے کے مطابق: اس کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ میڈیا ہاوسزعدالتی کاموں میں مداخلت کرتے ہیں، جس سے پیمرا جیسے ادارے انتظامی اور انضباطی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اقبال خٹک نے کہا آج کل تو یوں لگتا ہے جیسے پیمرا ٹی وی چینلز کو لائسنس نہیں دیتا بلکہ الیکٹرانک میڈیا ہاؤسزمیں صحافتی مواد کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ ’تمام اتھارٹی پیمرا کے ہاتھ میں ہو جیسے۔‘
مسودے میں دنیا کے ملکوں میں قائم ایسی عدالتوں کی موجودگی کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں بھارت، امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور کنیڈا کی مثالیں دی گئیں، جبکہ پاکستان میں بینکنگ سیکٹرز کے تنازعات کے حل کے لیے موجود خصوصی ٹریبونلز کی مثال بھی دی گئی۔
مظہر عباس کا کہنا تھا پی ایف یو جے حکومت کو پہلے ہی یہ تجویز دے چکی ہے کہ میڈیا سے متعلق مقدمات کی پیروی کے لیے سپیشل پراسیکیوٹر لگائے، جس سے مقدمات جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے سامنے حامد میر بمقابلہ وفاق کے نام سے مقدمہ گذشتہ کئی سال سے زیر التوا ہے، جس میں اعلیٰ عدالت کے حکم پر جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جاوید جبار پر مشتمل کمیٹی نے تفصیلی رپورٹ مرتب کی تھی، جو وفاقی حکومت تک پہنچ چکی ہے، اس رپورٹ میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 2012سے کسی حکومت نے اس رپورٹ پر کوئی توجہ نہیں دی، اگر تحریک انصاف کی حکومت واقعی مخلص ہے تو اس رپورٹ کو نکال کر دیکھ لے۔
پی ایف یو جے کے سابق صدر پرویز شوکت نے البتہ خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ان عدالتوں میں مالکان اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خلاف کارکنان کو تنخواہیں نہ دینے کے مقدمات چلنے چاہیں۔
پی ایف یو جے کے دوسرے دہڑے کے صدر جی ایم جمالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ان کی تنظیم کا ایک وفد دو ماہ قبل وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری سے ملا تھا۔
انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ میڈیا کارکنان کے مسائل کے حل کے لیے حکومت جلد ہی تجویز لے کر آئے گی۔
جی ایم جمالی نے کہا اگر خصوصی عدالتوں کی تجویز انہی مذاکرات کا نتیجہ ہیں تو وہ ان کی مخالفت نہیں کریں گے، تاہم مسودہ دیکھنے کے بعد ہی اس سے متعلق حتمی رائے دی جا سکتی ہے۔
پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ایوب جان سرحدی نے مجوزہ عدالتوں کے اختیارات اور دائرہ کار سے متعلق سوالات اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا: ہمیں بتایا جائے کہ یہ عدالتیں کیا ہوں گی؟ کیا کریں گی؟اور ان کے اختیارات کیا اور کہا تک ہوں گے۔
مظہر عباس نے وزیر اعظم عمران خان کو تجویز دی وہ میڈیا ملازمین کی تنظیموں اور اداروں کے نمائندوں اور سینئیر صحافیوں کو بلا کر ایک مباحثہ کرلیں اور ایک مفصل پالیسی بنالیں، جس میں تمام امور کا خیال رکھا جائے۔ اور پھر اس پر پوری ایمان داری سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ ان کا خیال تھا اس سے حکومت اور میڈیا کے کافی سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔