جہاں انگلینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے مابین جاری ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہیں فیصل آباد کا اقبال سٹیڈیم گذشتہ 14 سال سے انٹرنیشنل کرکٹ کی راہ تک رہا ہے۔
لاہور میں تین مارچ 2009 کو سری لنکا کی قومی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ میچوں کے انعقاد میں تعطل یکم اپریل 2018 کو ویسٹ انڈیز کی قومی ٹیم کی پاکستان آمد سے ختم ہو گیا تھا، لیکن اقبال سٹیڈیم میں تاحال کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں ہو سکا۔
اقبال سٹیڈیم کے ایڈمنسٹریٹر نوید نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سٹیڈیم 66-1965 میں تعمیر ہوا تھا اوراس کا پہلا نام لائل پور سٹیڈیم رکھا گیا، جسے بعد میں تبدیل کر کے انٹرنیشنل سٹیڈیم اور پھر علامہ اقبال کے نام پر اقبال سٹیڈیم کر دیا گیا تھا۔
ان کے بقول: ’1978 میں یہاں پہلا ٹیسٹ انڈیا اور پاکستان کا ہوا۔ اس سے پہلے تین روزہ میچ ہوتے رہے لیکن 1978 میں اسے ٹیسٹ سینٹر کا درجہ دیا گیا۔‘
اس میچ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت سٹیڈیم میں شائقین کے بیٹھنے کے لیے سٹینڈز نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ سرکس کی طرح گراؤنڈ کے ارد گرد تختے لگا کرشائقین کو بٹھایا جاتا تھا۔
’آہستہ آہستہ نیچے دکانیں بننا شروع ہو گئیں اور پانچ، چھ مراحل میں یہ مکمل ہوا۔ 2005 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہاں فلڈ لائٹس لگائیں، جس کے بعد یہاں فلڈ لائٹس میں ون ڈے میچ ہونا شروع ہوگئے اور پھر 2011 میں الیکٹرانک سکور بورڈ لگایا گیا۔‘
اقبال سٹیڈیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں پہلا انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ اکتوبر 1978 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین کھیلا گیا تھا جبکہ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گراؤنڈ پراب تک کا آخری ٹیسٹ میچ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین جنوری 2006 میں کھیلا گیا تھا۔
اسی طرح یہاں پہلا انٹرنیشنل ون ڈے میچ نومبر 1984 میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کھیلا گیا تھا جبکہ آخری ون ڈے اپریل 2008 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین کھیلا گیا تھا۔
نوید نذیر کے مطابق اقبال سٹیڈیم میں اب تک 24 ٹیسٹ میچ اور 12 ون ڈے میچ ہو چکے ہیں اور بہت سے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی یادیں اس گراؤنڈ سے وابستہ ہیں۔
’آسٹریلیا کے فاسٹ بولر ڈینس للی نے خاص طور پر یہ کہا تھا کہ مرنے کے بعد میری قبر یہاں بنا دینا کیونکہ اس وقت جاوید میانداد پاکستان کے کپتان تھے اور ان کی ضرورت کے مطابق بیٹنگ وکٹ بنائی گئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ 1979 میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ڈینس للی ایک بھی وکٹ حاصل نہیں کر سکے تھے جبکہ پاکستان کے وکٹ کیپر تسلیم عارف نے پانچ دن پیڈ نہیں اتارے تھے۔
’وہ وکٹ کیپر تھے، پہلے دو دن انہوں نے بیٹنگ کی اور 210 سکور بنائے اور پھر باقی دن انہوں نے کیپنگ کی تھی۔ آسٹریلیا کے کپتان آئن چیپل نے بھی 210 سکور بنایا تھا اور وہ بڑا اچھا یادگار میچ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقبال سٹیڈیم میں پاکستان کا ایک اور یادگار میچ 1986 میں ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے خلاف تھا، جس میں پاکستان نے سلیم ملک اور عبدالقادر کی شاندار کارکردگی کی بدولت فتح حاصل کی تھی۔
نوید نذیر اس میچ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اس میچ میں میلکم مارشل نے بال مار کر سلیم ملک کا بازو توڑ دیا تھا، اس کے باوجود سلیم ملک کی ہمت تھی کہ انہوں نے ایک ہاتھ سے دوبارہ بیٹنگ کی اور پاکستان کو وہ میچ جتوایا اور اسی میچ میں سپن بولر عبدالقادر نے چھ کھلاڑی آؤٹ کیے تھے۔‘
اقبال سٹیڈیم میں ایک اور یادگار واقعہ انگلینڈ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران 1987 میں پیش آیا تھا۔
انگلینڈ ٹیم کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے مابین ہونے والے اس جھگڑے کو کرکٹ کی تاریخ کے چند ناخوشگوار ترین واقعات میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
نوید نذیر نے یہ میچ خود سٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا تھا اور وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بولر بال کروانے لگا تو مائیک گیٹنگ نے اشارے سے فیلڈ تبدیل کروا دی، جس کی وجہ سے شکور رانا نے نوبال دے دی۔ اس وجہ سے جھگڑا اتنا لمبا ہوا کہ کھیل رک گیا اور اگلے دن بھی میچ نہیں ہو سکا تھا۔‘
اسی طرح دسمبر 1998 میں یہاں ہونے والے پاکستان اور زمبابوے کے ٹیسٹ میچ میں پہلے چار دن شدید دھند رہی، جس کی وجہ سے پانچویں روز یہ ٹیسٹ میچ بغیر ایک بال کروائے ختم کر دیا گیا تھا۔
تین میچوں کی اس ٹیسٹ سیریز میں زمبابوے کی ٹیم پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ میچ جیت چکی تھی جبکہ لاہور میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹیسٹ میچ برابر رہا تھا۔
اس طرح فیصل آباد کا میچ بے نتیجہ ختم ہونے کے باعث زمبابوے کی ٹیم کو اپنی سرزمین سے باہر کسی دوسرے ملک میں پہلی ٹیسٹ سیریز اپنے نام کرنے کا موقع مل گیا۔
پی سی بی کی طرف سے اقبال سٹیڈیم میں انٹرنیشنل میچز نہ کروانے کے سوال پر نوید نذیر نے بتایا کہ پی سی بی نے ملتان، پنڈی، لاہور اور کراچی کے کرکٹ سٹیڈیم لیز پر لیے ہوئے ہیں، اس لیے زیادہ میچ وہاں کروائے جاتے ہیں۔
’یہ سٹیڈیم پی سی بی کے پاس نہیں ہے، پی سی بی والے مانگ رہے ہیں 2006 سے لیکن ہماری ضلعی انتظامیہ اسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دو ماہ قبل آخری میٹنگ میں بھی پی سی بی نے سٹیڈیم لیز پر دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ جو بھی انتظامات آپ کہتے ہیں ہم وہ مکمل کر دیتے ہیں۔
’دو، تین ماہ میں ہم اس کی تزئین و آرائش کر رہے ہیں، اس میں تماشائیوں کی گنجائش بڑھا رہے ہیں، وی وی آئی پی باکسز بنا رہے ہیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ یہاں پی ایس ایل اور انٹرنیشنل میچز بحال ہو جائیں گے۔‘
اقبال سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے ایک نمائشی میچ میں شریک کلب کرکٹر عبدالستار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فیصل آباد میں کرکٹ تقریباً ختم ہی ہو گئی ہے۔
’فیصل آباد میں گراؤنڈ بھی اچھا ہے، اچھی سہولیات موجود ہیں۔ جتنی کرکٹ فیصل آباد میں ہو گی، اتنے ہی پلیئر ابھر کر آئیں گے۔‘
(ایڈیٹنگ: ندا حسین)