پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کامسٹیک سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طلبہ کو آن لائن تعلیم کی سہولت پیش کرنے پر کام کریں۔
صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار کامسٹیک کے رابطہ کارِ اعلیٰ (کوآرڈینیٹر جنرل) پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری سے ایوان صدر میں ملاقات کے دوران کرتے ہوئے کیا۔
کامسٹیک (سٹینڈنگ کمیٹی فار سائنٹفک اینڈ ٹیکنالوجیکل کوآپریشن) او آئی سی کے زیرِ تحت ایک ادارہ ہے جو او آئی سی کے رکن ملکوں میں سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ اور ترویج کے لیے کام کرتا ہے۔
رابطہ کارِ اعلیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ذریعے پاکستان افغان طلبہ کو تعلیمی ماڈیولز اور آن لائن تعلیمی خدمات پیش کر سکتا ہے تاکہ افغان طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے موثر ذرائع فراہم کیے جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتظام سب سے سستا اور اعلیٰ معیار کا ہے اور اس سے افغانستان کو درپیش تعلیمی سہولیات کی کمی کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے موقعے پر ہوئی ہے جب منگل کو افغان طالبان ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائے۔
اس کے بعد بدھ کو مسلح محافظوں نے طالبات کو یونیورسٹیوں میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
طالبان کی جانب سے خواتین پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کرنے کے فیصلے پر دنیا بھر سے مذمت اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اس فیصلے کے بعد اقوام متحدہ، امریکہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے مذمتی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان محمد صادق نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’پاکستان افغان حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیم معطل کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔ پاکستان کو افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیم معطل کرنے پر مایوسی ہوئی ہے۔‘
افغان طالبان کے اس فیصلے پر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’بہترین رویہ طالبان کے ساتھ روابط ہی ہونے چاہییں۔‘
امریکہ میں موجود پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس فیصلے پر مایوسی ہوئی ہے۔‘
’خواتین کی تعیلم اور دیگر چیزوں میں رکاوٹوں کے باوجود میرے خیال میں ہمارے مقصد کا بہترین راستہ کابل اور عبوری حکومت ہی ہیں۔‘