کشمیر کی مرغی دو ملکوں میں تقسیم

جموں و کشمیر کا مسئلہ اس مرغی کی شکل اختیار کر چکا ہے جس پر انڈیا یا پاکستان کی سیاسی اور مسلح لیڈرشپ کے جملہ حقوق بحال ہیں۔

بی جے پی کے کارکن 17 دسمبر 2022 کو انڈیا کے شہر رانچی میں بلاول بھٹو کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو ’قصائی‘ کہنے کے واقعے پر جب میں نے وادی کے ایک معروف روزنامے کے ایڈیٹر سے ان کی رائے دریافت کی تو انہوں نے لمبی خاموشی کے بعد کہا، ’بلاول نے اگر اپنی بات مسکرانے کے بجائے سنجیدگی سے کہی ہوتی تو شاید کشمیریوں پر اس کا کچھ اثر ہوا ہوتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہماری خاموشی سے شاید انہیں بھی احساس ہوا ہو گا کہ غیر سنجیدہ طرز عمل سے بات کی اہمیت زائل ہوتی ہے۔ نانا بھٹو سے لے کر نواسے بھٹو تک کا سفر کشمیر کے تناظر میں خاصا ابہام کا شکار رہا ہے اور بیشتر کشمیری تاریخ کے ان اوراق کو دفن کر چکے ہیں۔‘

بلاول بھٹو نے انڈیا کے وزیرِ خارجہ جے شنکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے مگر گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ انڈیا کا وزیرِ اعظم ہے۔‘

انہوں نے گاندھی کے مجسمے کی نقاب کشائی کی افتتاحی تقریب کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’جو لوگ گاندھی کا مجسمہ سجا رہے ہیں انہی نے ان کا قتل کیا ہے۔ انڈیا کے اندر دہشت گردی کو کون فروغ دیتا ہے؟ اس بارے میں آپ انڈین گجرات کے لوگوں سے پوچھیں وہ اس کا جواب دیں گے، کشمیر کے لوگوں سے اگر پوچھیں گے تو وہ ضرور کہیں گے کہ گجرات کا قصائی اب کشمیر کا قصائی بن چکا ہے۔‘

ظاہر ہے اتنے سخت بیان پر انڈیا کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا جو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے قریب بی جے پی کے کارکنوں کے مظاہروں پر منتج ہوا۔

حقیقت میں جموں و کشمیر کا مسئلہ اس مرغی کی شکل اختیار کر چکا ہے جو گذشتہ سات دہائیوں سے صرف سونے کے انڈے دے رہی ہے اور جس پر صرف انڈیا یا پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے جملہ حقوق بحال ہیں۔ دونوں جانب سے حتیٰ الامکان کوشش ہے کہ یہ مرغی زندہ رہے تاکہ ہر سیاسی افراتفری سےتوجہ ہٹانے یا انتخابات میں کامیابی کے لیے سونے کے انڈے حاصل کیے جا سکیں۔

انڈیا میں اگر کسی جماعت (حکمران یا اپوزیشن) کو ذرا بھی اشارہ ملتا ہے کہ اسے قومی یا ریاستی انتخابات میں شکست سے دو چار ہونے کا خطرہ ہے تو وہ فوراً کشمیر کو سرخی بنانے کے لیے اپنی پوری مشینری حرکت میں لے آتی ہے۔

لکھنو میں انتخابی رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ماہر انیل راٹھور کہتے ہیں کہ ’گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو رائے عامہ کے مختلف جائزوں سے اشارہ ملا تھا کہ وہ اکثریت سے ووٹ حاصل نہیں کرے گی تو فورا پارٹی نے کشمیر کی مرغی کو ڈربے سے نکالا۔ پلوامہ حملے نے محض چوبیس گھنٹوں میں نہ صرف انڈیا کو تبدیل کیا بلکہ پوری اپوزیشن کا ووٹ بنک بھی بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا۔‘

دو سال میں پھر پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس بار ’آزاد کشمیر‘ کو ہتھیانے کے لیے مرغی کو پالا جا رہا ہے اور جس کے لیے بعض کشمیریوں کو رائے عامہ تیار کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا ہے۔

پاکستان کی لیڈرشپ بھی اپنے انڈین ہم منصب سے کم نہیں ہے۔ وہ بھی اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے کشمیری مرغی کو دوبارہ پالنے لگے ہیں جس کی شروعات بلاول بھٹو نے امریکہ میں اپنے بیان سے کر دی ہے۔

بقول ایک کشمیری سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عرفان کول ’حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سیاسی اور معاشی کارکردگی صفر کے برابر ہے، پھر عمران خان کے بیانیے نےان کا ووٹ بنک  کسی حد تک ان سے چھین لیا ہے۔ اب پارلیمانی انتخابات میں بیچنے کے لیے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا ہے تو کشمیر پر بولنے لگے۔ انہیں اس بات کا ذرا بھی شائبہ نہیں کہ کشمیری قوم پر اس وقت کیا گزر رہی ہے۔ ہم بلاول یا دوسروں کے کھوکھلے بیانات سے اب مرعوب نہیں ہوتے۔‘

ایک وقت تھا جب کشمیر کے بیشتر عوامی حلقے پاکستانی رہنماؤں کے کشمیر بارے بیانات سننے کے لیے بےتاب ہوتے، اب یہ وقت ہے کہ بیشتر لوگوں نے بلاول کے بیان کو سننا بھی گوارا نہیں کیا جس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد پاکستان کا غیر سنجیدہ ردعمل اور جنرل باجوہ کا ’ماضی کو بھول‘ جانے والا بیان ہے۔

پھر جب انڈیا کے سراغ رساں ادارے کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے کے پیچھے جنرل باجوہ کا کردار اور ان کے انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے بیچ ملاقات یا مراسم کی بھی خبریں ہیں، وہ بھی 2019 کے بعد، تو یہ انکشاف کشمیریوں کے لیے صدمے سے کم نہ تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشمیری روزنامے کے ایڈیٹر کے بقول ’اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے چند روز بعد جب پوری وادی کو لاک ڈاؤن میں قید کردیا گیا تھا تو اجیت دوول نے شوپیان کے چوک میں چند لوگوں کے ساتھ بریانی کھانے کی ویڈیو وائرل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ کشمیر میں حالات نارمل ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شیرخواروں کے لیے دودھ نایاب، مردوں کو دفنانے اور حاملہ عورتوں کو ہسپتال پہنچانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔‘

کشمیریوں کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ جہاں تک کشمیر پالیسی ہے وہ پاکستانی افواج کا لاڈلا بچہ ہے جسے وہ بعض مرتبہ سول لیڈرشپ کو دل بہلانے کے لیے دیتے ہیں۔

مظفر آباد کے رئیس سدھونی کہتے ہیں کہ ’سول لیڈرشپ نے جب بھی اس بچے کو اپنا کر اسے منزل دکھانے کی کوشش کی تو پھر کبھی کرگل، کبھی چار نکاتی فارمولا، تو کبھی انہیں ماضی کو بھول جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایسی حالت میں جہاں مودی کشمیر کو مقامی آبادی سے ہتھیانے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہیں پاکستانی لیڈرشپ کو بھی اس کا شراکت دار سمجھنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی بات کہنے پر مجھے غداری یا ایجنٹ ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا۔‘

امریکی وزارت خارجہ کے کشمیر کے حالیہ بیان کی اہمیت شاید اس حد تک ہے کہ وہ دوبارہ پاکستانی حدود میں گھس کر چین اور روس پر کڑی نگاہ رکھنے کے چکر میں عوام کا اعتماد بحال کرنا چاہتا ہے حالانکہ افغانستان میں انڈیا کی موجودگی کو بڑھانے اور طالبان سے رشتے قائم کرنے میں اس کے مرکزی کردار کی نفی نہیں کی جا سکتی جس کا ثمر فی الحال اس نئے نقشے کی صورت میں ملا جس میں طالبان کے ایک دھڑے نے پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کو افغانستان کا حصہ دکھایا ہے۔

یعنی کشمیر کی مرغی دو ملکوں کے بجائے اب چین اور افغانستان سمیت  چار ملکوں کے لیے انڈے دینے لگی ہے۔

کشمیریوں کو احساس ہے کہ انہیں اپنی شناخت، تشخص اور حقوق کے حصول کی لمبی لڑائی تنہا لڑنی ہو گی جس کے لیے متحد ہو کر بغیر کسی سہارے کے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہو گا، لیکن انہیں پہلے خود اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو مارنا ہو گا تاکہ حریف ملکوں کی سول اور عسکری لیڈرشپ کو کشمیری قوم کا مزید استحصال کرنے سے روکا جا سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ