پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے علاقے لیسوا میں رواں ماہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ یا بادل پھٹنے کے نتیجے میں آنے والے سیلابی ریلے نے نہ صرف انسانوں، پالتو جانوروں اور املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ اس سے جنگلی و آبی حیات اور جنگلات بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے علاوہ دریائے نیلم سے ملنے والی لکڑی اور جنگلی جانوروں کی باقیات سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔
گذشتہ ہفتے دارالحکومت مظفرآباد کے قریب دریائے نیلم سے نایاب نسل کا ایک کالا ریچھ مردہ حالت میں ملا اور خیال کیا جا رہا ہے یہ ریچھ لیسوا سیلاب کی زد میں آ کر ہلاک ہوا اور اس کی لاش دریا میں بہہ کر یہاں تک پہنچی۔
سیلاب سے نقصان
13 اور 14 جولائی کی درمیانی رات لیسوا میں آنے والے سیلابی ریلے میں کل 25 افراد لاپتہ ہو گئے تھے، جن میں تبلیغی جماعت کے 10 کارکن ، لیسوا کے نو مقامی رہائشی اور راولپنڈی کے ایک رہائشی کے علاوہ پانچ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دوسرے روز مظفرآباد کے مختلف علاقوں سے لکڑیاں پکڑتے دریا میں ڈوب گئے تھے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ریاستی ادارے ایس ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر سعید قریشی کے مطابق لاپتہ افراد میں سے اب تک کل 10 افراد کی لاشیں دریائے نیلم سے نکالی جا چکی ہیں، جن میں دو مقامی خواتین اور ایک مرد کے علاوہ تبلیغی جماعت کے تین کارکن اور لکڑیاں پکڑنے والے چار افراد شامل ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے جس پہاڑی پر بادل پھٹنے سے سیلاب کی ابتدا ہوئی اس کے دامن میں تینوں اطراف، دیودار، کائل اور فر کے جنگلات ہیں۔ سیلاب کے باعث جہاں اس جنگل میں موجود لکڑی کی گیلیاں اور درختوں کے بوسیدہ تنے بہہ گئے، وہیں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بڑی تعداد میں سبز درخت بھی تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ جنگلی پیداوار اور جڑی بوٹیوں کو بھی نقصان پہنچا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقے میں تعینات ڈویژنل فاریسٹ آفیسر عصمت حسین شاہ نے انڈپینڈینٹ اردو سے گفتگو میں تصدیق کی کہ اس علاقے میں دیودار، کائل اور فر کے علاوہ دیگر اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں، تاہم سیلاب سے ان درختوں یا جنگلی پیدوار کو پہنچنے والے نقصان کے مصدقہ اعداد و شمار فی الوقت دستیاب نہیں۔ ’اس علاقے کا سروے ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اعداد و شمار سامنے آ جائیں گے۔‘
سیلاب اتنا تباہ کن کیوں تھا؟
اس سے قبل لیسوا کے رہائشی شاہ نواز بٹ نے، جن کی اہلیہ اور تین بیٹیاں سیلاب میں بہہ گئی تھیں، انڈپینڈیٹ اردوکو بتایا تھا کہ سیلاب سے اس قدر تباہی کی اصل وجہ جنگلات کا کٹاؤ ہے۔ ’میں خود بھی محکمہ جنگلات سے منسلک رہا ہوں۔ اس علاقے کے عقب میں پہاڑی پر جنگل کو کئی سال پہلے کاٹا گیا تھا۔‘
’تقریباً 10 ہزار مکعب فٹ لکڑی جگہ جگہ جنگل میں پڑی تھی، سیلابی ریلا اس لکڑی کو اپنے ساتھ بہا لایا، جس نے گاؤں میں تباہی پھیلائی، اگر لکڑی کی گیلیاں نہ ہوتی تو شاید تباہی اتنی شدید نہ ہوتی۔‘
کالا ریچھ کیسے مرا؟
جمعے کوجن شہریوں نے مظفرآباد میں دریائے نیلم سے کالے ریچھ کی لاش نکالی ان میں شامل 26 سالہ سجاد نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اُس رات دریائے نیلم میں پانی کا بہاؤ اچانک تیزہو گیا۔ صبح جب دریا اترا تو کنارے کے قریب پانی میں کوئی چیز تیر رہی تھی۔ ’ہم سمجھے شاید کوئی انسانی لاش بہہ رہی ہے، لیکن جب اسے باہر نکالا تو وہ ایک مردہ ریچھ تھا۔‘
محکمہ جنگلی و آبی حیات کے ڈائریکٹر نعیم افتحار ڈار کے مطابق نایاب نسل کے کالے ریچھ کی لاش10 سے 15دن پرانی تھی اور پتھروں سے ٹکرانے کے نتیجے میں بری طرح مسخ ہو چکی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نعیم افتخار ڈار کا کہنا تھا:’ریچھ ایک اچھا تیراک ہوتا ہے، وہ اگر کسی وجہ سے دریا میں گر جائے تو تیر کر نکل جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کم ہی ہوتے ہیں کوئی ریچھ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو جائے۔ ‘
’ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب ریچھ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے یا اسے کوئی شکاری ہلاک کرے اور وہ پانی میں گر جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول ریچھ کی انتڑیاں بری طرح مسخ ہو چکی تھی اس لیے پوسٹ مارٹم کے ذریعے ریچھ کی ہلاکت کی وجہ معلوم کرنا ممکن نہیں تھا، تاہم غالب امکان یہی ہے کہ اس کی موت سیلاب کے دوران ہوئی۔
کیا ریچھ کو کسی شکاری نے ہلاک کیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے نعیم ڈار نے وضاحت کی اس موسم میں ریچھ انسانی آبادیوں سے دور پہاڑوں پر ہوتا ہے اور اس کا انسان سے کوئی براہ راست ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔ ’شکاری چربی، کھال یا گوشت حاصل کرنے کے لیے ریچھ کا شکار خزاں کے موسم میں کرتے ہیں۔ اس موسم میں عام طور پر شکار کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
اس علاقے میں کس قسم کی جنگلی حیات پائی جاتی ہے؟
جس پہاڑی پر کلاؤڈ برسٹ سے سیلاب کی ابتدا ہوئی وہ مچھیارہ نیشنل پارک کے ساتھ جڑی ہے اور اس تباہی کے اثرات مچھیارہ نیشنل پارک کے کچھ علاقوں تک بھی پھیلے ہیں۔ تاہم مقامی افراد کے بقول جن علاقوں میں درخت نہیں کٹے تھے وہاں جنگل نے سیلاب کی شدت کو کم کر دیا اور اس کے اثرات انسانی آبادیوں تک نہیں پہنچے۔
مچھیارہ نیشنل پارک سے ملحق ہونےکی وجہ سے اس علاقے میں کالے ریچھ کے علاوہ نافہ ہرن، برفانی چیتے اور دیگر کئی نایاب اقسام کے جانوروں اور پرندوں کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہر ڈاکٹر بصیر الدین قریشی بتاتے ہیں جس علاقے میں اس طرح کی تباہی ہوتی ہے وہاں اگر جنگلی حیات براہ راست اس کی زد میں نہ بھی آئیں تو ان کے رہائشی علاقے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ’فوڈ چین میں تمام جانوروں کی اپنی اہمیت ہے اور اس طرح کی تباہی سے جب فوڈ چین ٹوٹتی ہے تو یقیناً تمام جانور متاثر ہوتے ہیں۔‘
’بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جس سے فوری طور پراندازہ لگا سکیں کہ متاثرہ جنگلی جانوروں، پرندوں اور نالوں میں موجود مچھلیوں کی تعداد کیا ہے، تاہم یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے موسمیاتی تبدیلیاں ان جانوروں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں اور آنے والے عرصے میں اس کے اثرات بتدریج واضح ہوں گے۔‘